مصر میں لاشوں کے تحنط کی ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ دریافت
15 جولائی 2018
عجائبات عالم میں شمار ہونے والے اہرام مصر کے قریب سے زمانہ قدیم کے فرعونوں اور امراء کی لاشوں کے تحنط کی ایک ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ دریافت ہوئی ہے، جو ماہرین آثار قدیمہ کے بقول نئی معلومات کے لیے ’سونے کی کان‘ ہے۔
اشتہار
قدیم مصر میں انسانی لاشوں کو ایک مخصوص کیمیائی عمل کے ذریعے حنوط کر کے ہزاروں سال کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اس عمل کو تحنط یا mummification کہتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ورکشاپ ایک ایسی زیر زمین جگہ پر تھی، جہاں لاشوں کو حنوط کر کے کئی چھوٹے چھوٹے کمروں کی طرح کی قبروں میں دفنا دیا جاتا تھا۔
آرکیالوجی کے ماہرین اس دریافت پر اس لیے بہت خوش اور پرجوش ہیں کہ اب ہزارہا برس پہلے کے حالات سے متعلق زیادہ بہتر اور مفصل معلومات حاصل ہو سکیں گی کہ قدیم مصر میں لاشوں کا تحنط کیسے کیا جاتا تھا۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے جرمن اور مصری ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ ’دارالتحنط‘ اہرام مصر کے ایک قریبی علاقے میں سقارہ نامی قدیمی قبرستان کے نواح میں دریافت ہوا ہے۔
ماہرین کی اس ٹیم کے مطابق، جس میں جرمنی کی ٹیُوبِنگن یونیورسٹی کے محققین بھی شامل ہیں، اس زیر زمین ورکشاپ میں قریب 2500 سال پہلے انسانی لاشوں کا تحنط بھی ہوتا تھا اور تدفین بھی۔ اسی لیے اس ورکشاپ‘ سے کئی حنوط شدہ لاشیں، لکڑی کے تابوت اور پتھر پر کھدائی کر کے بنائے گئے وہ بڑے بڑے چوکور چیمبر بھی ملے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں کوئی حنوط شدہ لاش یا ’ممی‘ رکھی جاتی تھی۔
محققین کو امید ہے کہ اس جگہ سے ملنے والی معلومات کے انتہائی مفصل اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کیے جانے والے تجزیوں کے نتیجے میں شاید یہ پتہ بھی چلایا جا سکے کہ ازمنہ قدیم کے مصری باشندے لاشوں کو ہزاروں سال تک محفوط رکھنے کے لیے ان پر کس کس طرح کے تیل یا دیگر مادوں کی مالش کرتے تھے۔
ماہرین کی اس ٹیم کے ایک مصری رکن رمضان حسین نے بتایا، ’’نئی حیران کن معلومات کے حوالے سے ہم سونے کی ایک بڑی کان کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہم شاید اس حد تک بھی حقائق کا تعین کر سکیں کہ تحنط کے لیے استعمال کیے جانے والے تیل اپنی کیمیائی ہیئت اور خواص میں کیسے ہوتے تھے۔‘‘
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس’دارالتحنط‘ سے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے چھوٹے چھوٹے مجمسے، مرتبان اور دیگر برتن بھی ملے ہیں، جو سب کے سب ان زیر زمین چیمبرز میں کسی نہ کسی لاش کو حنوط کرنے کے عمل میں استعمال ہوتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی اہم دریافت اسی روکشاپ سے ملنے والا چاندی کا بنا ہوا ایک ایسا ماسک بھی ہے، جو انسانی تاریخ میں آج تک اپنی نوعیت کی صرف دوسری دریافت ہے۔ قدیم باقیات اور تاریخی نوادرات کے محکمے کے مصری وزیر خالد العنانی نے اس بارے میں نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’یہ تو صرف ابتدا ہے۔‘‘
تحنط کے لیے استعمال ہونے والی یہ ڈھائی ہزار سال پرانی ورکشاپ سقارہ کے جس قدیمی قبرستان کے قریب دریافت ہوئی ہے، وہ منف ہی کا حصہ تھی۔ منف یا Memphis قدیم مصر کا اولین دارالحکومت تھا۔ سقارہ اور منف اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تسلیم کردہ ان تاریخی مقامات میں شامل ہیں، جنہیں عالمی ثقافتی میراث کا نام دیا جاتا ہے۔
جدید مصر کے اسی علاقے میں آج تک ہزاروں سال پرانے بہت سے معبد اور مقبرے دریافت ہو چکے ہیں اور الجیزا کے تین بہت مشہور اہرام بھی اسے علاقے میں ہیں۔ اس ورکشاپ سے دریافت ہونے والے نوادرات کو ممکنہ طور پر مصر کے ’گرینڈ ایجپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا، جو ابھی زیر تعمیر ہے۔
م م / ع ا / روئٹرز، اے پی
صحراؤں میں سے راستہ بناتا دریائے نیل
گوئٹے انسٹیٹیوٹ سوڈان کی تیار کردہ ایک نمائش آج کل جرمن شہر ڈاساؤ کے وفاقی دفتر ماحولیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ تین ابھرتے ہوئے فوٹوگرافرز نے کیمرے سے اتری ہوئی اپنی ان تصاویر میں نیل کے ساتھ ساتھ آباد بستیاں دکھائی ہیں۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
’رشید‘ نامی شہر میں آباد ایک خاندان
یہ فوٹوگرافرز سیاسی تنازعات کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔ محمود یاقوت نے ’رشید‘ میں بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا ہے، جہاں زیادہ تر خاندان زراعت پیشہ ہیں۔ نیل ڈیلٹا کی زرخیز زمینیں ان انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
تصویر: Mahmoud Yakut
نیل پر مچھلی کے فارم
مصری شہر ’رشید‘ کے پاس دنیا کا یہ طویل ترین دریا بحیرہٴ روم میں جا کر گرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انسانوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ لکڑی سے بنائے گئے فِش فارم پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جن پر چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنی ہوتی ہیں۔ ہر جھگی میں ایک بستر اور ایک چھوٹے سے کچن کی جگہ ہوتی ہے۔ خاندان کا ایک فرد اس متحرک فارم کی نگرانی کرتا ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
شہر کی زندگی
’رشید‘ میں ماضی اور حال آپس میں ملتے ہیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے اس بندرگاہی شہر کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تاریخ اور کاروبار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی بہت سادہ ہے۔ مصری شہر ’رشید‘ اپنے باسیوں کی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کے لیے مشہور ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
خواتین کا کردار
’رشید‘ میں خواتین عام طور پر گھر پر رہتی ہیں، امورِ خانہ داری انجام دیتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ روایتی تندوروں میں روٹی بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین بازار میں سبزیاں اور گھر میں تیار کیا گیا پنیر بھی فروخت کرتی ہیں۔ غربت کے باوجود یہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ بانٹنا اُن کی زندگی کے فلسفے میں شامل ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
تخلیق کی لیبارٹری
ان فوٹوگرافرز کو 2013ء کے موسمِ گرما میں ایک ورکشاپ کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب یہ نمائش پہلی مرتبہ جرمن سرزمین پر دکھائی جا رہی ہے۔ سوڈان کے الصادق محمد کو برتن بنانے کے فن سے بہت دلچسپی ہے۔ نیل کے ساتھ ساتھ مٹی سے برتن بنانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ الصادق کے خیال میں اس فن میں فنکار اور اُس کی تخلیق میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
زندہ دریائے نیل
دریائے نیل کے ساتھ ساتھ صدیوں سے برتن بنانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ اسوان ڈیم بننے تک یہ حال تھا کہ دریا میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا۔ خاص طور پر آج کل کے حالات میں پانی بہت ہی قیمتی چیز بن چکا ہے۔ یہ دریا مصری سرزمین کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تبدیلی کی بھی علامت ہے۔ لوگ آبی وسیلے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل اور توانائی کے لیے بھی نیل پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
انتہائی قدیم روایات
مٹی سے بنے برتن کارآمد بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت بھی۔ صدیوں کے سفر میں اس فن میں نئی نئی اشکال وجود میں آئی ہیں۔ آج کل نُوبیا کے علاقے میں بننے والے برتن دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نمائشوں کی زینت بنتے ہیں اور سوڈان کے اس علاقے کی ثقافت اور تاریخ کی وہ داستانیں سناتے ہیں، جن پر نیل کی بہت گہری چھاپ موجود ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
نیلے دریا کے کنارے عاجزی کے سبق
بروک زیرائی مینگستُو کے ہمراہ ہم نیل کے اس سفر میں ایتھوپیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایتھوپیا میں جنم لینے والے اس نیلے دریا کے ساتھ ساتھ انتہائی ابتدائی دور کی مسیحیت سے جڑی انجیل کے طالب علموں کی ایک کمیونٹی ملتی ہے۔ روحانی مرتبہ حاصل کرنے اور لوگوں کے مسیحا بننے کے لیے یہ طلبہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی تنہائی کا راستہ خود چنتے ہیں اور ان کی تعلیم چَودہ برسوں میں مکمل ہوتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
انجیل کے طالب علم
وقتاً فوقتاً یہ طالب علم اپنی تنہائی سے نکل کر قریبی دیہات کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے خوراک مانگ کر لا سکیں۔ گداگری اُنہیں عاجزی سکھاتی ہے۔ اِن طالب علموں کا عقیدہ ہے کہ عاجزی روحانی قوت کا سرچشمہ بنتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
یکتائی اور ابدیت
دریائے نیل کا ایتھوپیا میں واقع حصہ یکتائی اور ابدیت کی علامت ہے۔ شہروں سے دور یہ نیلا دریا وسعت اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ خرطوم کی ورکشاپ کے شرکاء اپنے اپنے ملکوں کے سفر پر گئے، جن میں بہت سے آج کل جنگوں اور تنازعات کی زَد میں ہیں۔ متاثر کن تصاویر کی یہ نمائش ستائیس مئی تک جاری رہے گی۔