مصر میں مظاہرے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل
28 جنوری 201182 سالہ مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مظاہرے آج چوتھے روز بھی جاری ہیں ۔ پولیس کی طرف سے قاہرہ میں ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ مظاہرین گزشتہ 30 برسوں سے برسر اقتدار حسنی مبارک سے اقتدار چھوڑنے اور ملک میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مصر میں منگل سے جاری ان مظاہروں میں اب تک 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آج صبح قاہرہ کے مرکز میں طاہر اسکوائر کے قریب حفاظتی انتظامات کو انتہائی سخت کر دیا گیا تھا، جہاں ہزاروں مظاہرین ہفتے بھر سے اکھٹے ہو رہے ہیں۔ قبل ازیں کئی علاقوں میں انٹر نیٹ اور موبائل سروس معطل بھی کر دی گئی تھی۔ دارالحکومت قاہرہ میں مسجدوں کے قریب سکیورٹی انتہائی سخت اور سڑکیں بلاک کر دی گئیں ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنما اور نوبل انعام یافتہ محمد البرادئی نے مصر واپس پہنچنے پر جمعے کے بعد ان مظاہروں میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم انہیں جمعے کی نماز کے بعد مظاہروں میں شرکت سے روکنے لیے مسجد سے باہر آنے نہیں دیا گیا۔ عربی ٹیلی وژن چینل الجزیرہ کے مطابق البرادئی دو ہزار افراد کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ انہیں مسجد میں قید کر دیا گیا۔ تیونس کے یاسمین انقلاب کے بعد مصر میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئے ہیں۔ مظاہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اب حکومت کی بے جا طاقت کے سامنے وہ ہر گز نہیں جھکیں گے۔
ان مسلسل مظاہروں کے بعد امریکہ کے صدر باراک اوباما نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ قاہرہ حکومت عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے سیاسی اصلاحات عمل میں لائے۔ امریکی صدرباراک اوباما کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔ واشنگٹن حکومت کی جانب سے ملک کی مختلف حصوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی پابندی پر بھی مصری حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوسری طرف مصر کی مرکزی اپوزیشن پارٹی اخوان المسلمین نے پہلی مرتبہ اپنے ممبران کو مظاہروں میں شرکت کے لیے کہا تھا ۔ تاہم اس صورتحال میں حکومت نے مظاہروں پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بغاوت کرنے والوں کو کڑی سزا سنائی جائے گی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سکیورٹی فورسز نے اخوان المسلمین کے 20 سے زائد اہم رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادرات: کشور مصطفیٰ