مصر: نئے دریافت ہونے والے مقبروں کی حنوط شدہ بلیاں
11 نومبر 2018
مصر میں دریافت ہونے والے صدیوں پرانے مقبروں سے درجنوں حنوط شدہ بلیاں ملی ہیں۔ وہاں تقریبا ایک سو لکڑی سے بنی بلیاں بھی رکھی گئیں تھیں۔ سب سے حیران کن قدیم مصریوں کے حنوط شدہ متبرک بھنوروں کا ملنا ہے۔
اشتہار
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق دریافت ہونے والا مقبرہ تقریبا چار ہزار چار سو سال پرانا ہے اور قدیم مصری شہر سقارہ کی باقیات کے قریب دریافت ہوا ہے۔ مصری حکام نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ فرعونوں کے پانچویں حکمران خاندان کے اس مقبرے کو جلد ہی سیاحوں اور عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔ سقارہ ریسرچ ایریا کے ڈائریکٹر محمد یوسف کا کہنا تھا کہ اس مقبرے کا سامنے والا حصہ اور داخلی دروازہ ابھی تک بالکل صحیح سالم ہیں۔
اس قدیم علاقے میں ماہرین آثار قدیمہ کو مجموعی طور پر سات نئے مقبرے ملے ہیں اور ان میں بلیوں کی درجنوں ہنوط شدہ لاشیں ہیں۔ لکڑی کی بنی تقریبا ایک سو بلیاں بھی وہاں موجود ہیں جبکہ بلیوں کی دیوی باستت کے قریب بھی ایک کانسی کی بلی رکھی ہوئی ہے۔
اسی طرح ماہرین کو ایک بڑی تعداد میں ایسے بھنورے بھی ملے ہیں، جنہیں ہنوط کیا گیا تھا۔ مصر میں نوادارت کی سپریم کونسل کے رکن مصطفیٰ وزیر کا کہنا تھا، ’’یہ بھونرے واقعی نایاب چیز ہیں۔ جب چند دن پہلے ہم نے تابوت کھولے تو ان میں بھی بھونرے نقش شدہ تھے۔ میں نے اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں سنا۔‘‘
قدیم مصری لاشوں کو مابعد ازمرگ زندگی کے لیے حنوط کر دیا کرتے تھے جبکہ ایسی حنوط شدہ لاشوں کے پالتو اور جنگلی جانور بھی رکھے جاتے تھے۔ یہ یا تو ان کی حفاظت یا پھر تنہائی میں ساتھ دینے کی غرض سے رکھے جاتے تھے۔
قدیم مصری مذہب میں بلی اور بھونروں کو انتہائی طاقتور مذہبی علامات سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت کے امیر ترین مصریوں کے مقبرے بھی انتہائی شاندار بنائے جاتے تھے۔ ان میں سونا اور قیمتی اشیاء کثرت سے پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسی قبروں کو چور لوٹ لیتے ہیں۔ مصر میں اب بھی بہت سے نئے مقبرے دیافت ہوتے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کو پہلے ہی چور لوٹ چکے ہوتے ہیں جبکہ یہ مقبرے بالکل اپنی اصل حالت میں ملے ہیں۔
ا ا / ع ح (اے پی، روئٹرز)
صحراؤں میں سے راستہ بناتا دریائے نیل
گوئٹے انسٹیٹیوٹ سوڈان کی تیار کردہ ایک نمائش آج کل جرمن شہر ڈاساؤ کے وفاقی دفتر ماحولیات میں دکھائی جا رہی ہے۔ تین ابھرتے ہوئے فوٹوگرافرز نے کیمرے سے اتری ہوئی اپنی ان تصاویر میں نیل کے ساتھ ساتھ آباد بستیاں دکھائی ہیں۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
’رشید‘ نامی شہر میں آباد ایک خاندان
یہ فوٹوگرافرز سیاسی تنازعات کی نہیں بلکہ عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔ محمود یاقوت نے ’رشید‘ میں بسنے والے انسانوں کو موضوع بنایا ہے، جہاں زیادہ تر خاندان زراعت پیشہ ہیں۔ نیل ڈیلٹا کی زرخیز زمینیں ان انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں۔
تصویر: Mahmoud Yakut
نیل پر مچھلی کے فارم
مصری شہر ’رشید‘ کے پاس دنیا کا یہ طویل ترین دریا بحیرہٴ روم میں جا کر گرتا ہے۔ اس علاقے میں بہت سے انسانوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ لکڑی سے بنائے گئے فِش فارم پانی پر تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جن پر چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنی ہوتی ہیں۔ ہر جھگی میں ایک بستر اور ایک چھوٹے سے کچن کی جگہ ہوتی ہے۔ خاندان کا ایک فرد اس متحرک فارم کی نگرانی کرتا ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
شہر کی زندگی
’رشید‘ میں ماضی اور حال آپس میں ملتے ہیں۔ قرونِ وُسطیٰ سے اس بندرگاہی شہر کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہاں تاریخ اور کاروبار ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی بہت سادہ ہے۔ مصری شہر ’رشید‘ اپنے باسیوں کی خوش اخلاقی اور فراخ دلی کے لیے مشہور ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
خواتین کا کردار
’رشید‘ میں خواتین عام طور پر گھر پر رہتی ہیں، امورِ خانہ داری انجام دیتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہ روایتی تندوروں میں روٹی بھی بناتی ہیں۔ یہ خواتین بازار میں سبزیاں اور گھر میں تیار کیا گیا پنیر بھی فروخت کرتی ہیں۔ غربت کے باوجود یہاں کے باسی بہت مہمان نواز ہیں۔ بانٹنا اُن کی زندگی کے فلسفے میں شامل ہے۔
تصویر: Mahmoud Yakut
تخلیق کی لیبارٹری
ان فوٹوگرافرز کو 2013ء کے موسمِ گرما میں ایک ورکشاپ کے لیے گوئٹے انسٹیٹیوٹ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اب یہ نمائش پہلی مرتبہ جرمن سرزمین پر دکھائی جا رہی ہے۔ سوڈان کے الصادق محمد کو برتن بنانے کے فن سے بہت دلچسپی ہے۔ نیل کے ساتھ ساتھ مٹی سے برتن بنانے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ الصادق کے خیال میں اس فن میں فنکار اور اُس کی تخلیق میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
زندہ دریائے نیل
دریائے نیل کے ساتھ ساتھ صدیوں سے برتن بنانے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ اسوان ڈیم بننے تک یہ حال تھا کہ دریا میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا۔ خاص طور پر آج کل کے حالات میں پانی بہت ہی قیمتی چیز بن چکا ہے۔ یہ دریا مصری سرزمین کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلسل تبدیلی کی بھی علامت ہے۔ لوگ آبی وسیلے کے ساتھ ساتھ نقل و حمل اور توانائی کے لیے بھی نیل پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
انتہائی قدیم روایات
مٹی سے بنے برتن کارآمد بھی ہوتے ہیں اور خوبصورت بھی۔ صدیوں کے سفر میں اس فن میں نئی نئی اشکال وجود میں آئی ہیں۔ آج کل نُوبیا کے علاقے میں بننے والے برتن دنیا بھر کے عجائب گھروں اور نمائشوں کی زینت بنتے ہیں اور سوڈان کے اس علاقے کی ثقافت اور تاریخ کی وہ داستانیں سناتے ہیں، جن پر نیل کی بہت گہری چھاپ موجود ہے۔
تصویر: Elsadig Mohamed Ahmed
نیلے دریا کے کنارے عاجزی کے سبق
بروک زیرائی مینگستُو کے ہمراہ ہم نیل کے اس سفر میں ایتھوپیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایتھوپیا میں جنم لینے والے اس نیلے دریا کے ساتھ ساتھ انتہائی ابتدائی دور کی مسیحیت سے جڑی انجیل کے طالب علموں کی ایک کمیونٹی ملتی ہے۔ روحانی مرتبہ حاصل کرنے اور لوگوں کے مسیحا بننے کے لیے یہ طلبہ معاشرے سے کٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ طلبہ اپنی تنہائی کا راستہ خود چنتے ہیں اور ان کی تعلیم چَودہ برسوں میں مکمل ہوتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
انجیل کے طالب علم
وقتاً فوقتاً یہ طالب علم اپنی تنہائی سے نکل کر قریبی دیہات کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے لیے خوراک مانگ کر لا سکیں۔ گداگری اُنہیں عاجزی سکھاتی ہے۔ اِن طالب علموں کا عقیدہ ہے کہ عاجزی روحانی قوت کا سرچشمہ بنتی ہے۔
تصویر: Brook Zerai Mengistu
یکتائی اور ابدیت
دریائے نیل کا ایتھوپیا میں واقع حصہ یکتائی اور ابدیت کی علامت ہے۔ شہروں سے دور یہ نیلا دریا وسعت اور سکون کا احساس دیتا ہے۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ خرطوم کی ورکشاپ کے شرکاء اپنے اپنے ملکوں کے سفر پر گئے، جن میں بہت سے آج کل جنگوں اور تنازعات کی زَد میں ہیں۔ متاثر کن تصاویر کی یہ نمائش ستائیس مئی تک جاری رہے گی۔