مصری صدر کے حکم پر غزہ کی مصر کے ساتھ جڑی سرحدی گزرگاہ رفح کو کھول دیا گیا ہے۔ سرحد کھولنے کا فیصلہ ماہِ رمضان کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
اشتہار
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اسلامی تقویم کے مقدس سمجھے جانے والے مہینے رمضان کے دوران غزہ کے ساتھ جڑی سرحدی گزرگاہ کو کھولنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے کا سب سے اہم مقصد یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کو رمضان کے دوران اشیائے خورد و نوش کی کمیابی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
سرحدی گزرگاہ رفح کھولنے کے حوالے سے مصری صدر نے اپنے فیس بُک پیج پر لکھا کہ سرحد کھولنے سے یقینی طور پر غزہ کے فلسطینیوں کی پریشان کن حالت زار بہتر ہو سکے گی۔ غزہ کے فلسطینی باشندوں کا دنیا سے واحد رابطہ رفح کی سرحدی گزرگاہ ہے اور اس راستے پر اسرائیل کو کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ بقیہ تمام سمندری اور زمینی راستوں کی ناکہ بندی اسرائیل نے سن 2008 سے کر رکھی ہے۔
مصر نے حالیہ کچھ عرصے سے رفح چیک پوائنٹ کو مکمل طور پر بند رکھا ہوا ہے اور اس کی وجہ سکیورٹی کے خطرات بتائے جاتے ہیں۔ اس سرحدی راستے کو طویل وقت کے لیے آخری مرتبہ قریب پانچ برس قبل سن 2013 میں کھولا گیا تھا۔ رفح کے راستے کو رمضان میں آخری مرتبہ کھولا گیا لیکن جزیرہ نما سینائی میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہونے پر اسے فوری طور پر دوبارہ بند کر دیا گیا تھا۔
مصری حکومت نے رفح کی گزرگاہ کو ایسے وقت پر کھولا ہے جب غزہ کے فلسطینیوں نے رواں ہفتے کے دوران پیر کو یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر شدید احتجاج اسرائیلی سرحد پر کیا تھا۔ اس احتجاجی عمل کے دوران ساٹھ کے قریب فلسطینی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔
مصری وزارت خارجہ نے ہلاک ہونے والے تمام فلسطینیوں کو شہدا قرار دیتے ہوئے اسرائیلی فائرنگ کی مذمت بھی کی تھی۔ رواں برس تیس مارچ سے شروع ہونے والے فلسطینیوں کے ہفتہ وار احتجاج میں اب تک 114 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ مصر کے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات استوار ہیں اور اس باعث قاہرہ حکومت کئی مرتبہ افراتفری و انتشار کے حالات میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ابھی پچھلے اتوار کو ہی مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیں، جہاں انہوں نے مصری خفیہ ادارے کے سربراہ عباس اکمل سے ملاقات کی تھی۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔