سلمان رشدی پر حملہ: مصنف وینٹی لیٹر پر اور بولنے سے قاصر
13 اگست 2022
متنازعہ مصنف سلمان رشدی پر نیویارک میں اس وقت حملہ ہوا جب اسٹیج پر انہیں سامعین سے متعارف کروایا جا رہا تھا۔ ان کے ایک ایجنٹ کا کہنا ہے کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان کی صحت سے متعلق خبر اچھی نہیں ہے۔
اشتہار
ایوارڈ یافتہ مصنف سلمان رشدی پر 12 اگست جمعے کے روز نیویارک کے ایک دور دراز علاقے میں اس وقت چاقو سے حملہ کیا گیا جب وہ ایک ادبی تقریب کے لیے اسٹیج پر تھے اور ان کے خطاب سے پہلے ان کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ رشدی اپنا لیکچر شروع کرنے ہی والے تھے، تبھی ایک شخص سٹیج کی طرف تیزی سے بھاگا اور ان پر چاقو سے تابڑ توڑ حملے کرنے لگا۔
سامعین میں ایک ڈاکٹر بھی موجود تھے، جنہوں نے حملے کے بعد مدد کی پیشکش بھی کی۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ سلمان رشدی کی گردن میں دائیں جانب ایک زخم کے ساتھ کئی مزید زخم آئے ہیں۔ تاہم ان کی نبض چل رہی تھی۔
تقریب کے شرکاء نے اس حوالے سے جو تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسٹیج پر مصنف سلمان رشدی کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ ابتدائی طبی امداد کے فوری بعد انہیں ہیلی کاپٹر کی مدد سے ہسپتال تک پہنچایا گیا۔
اس تقریب میں موجود بفلو شہر کی ایک خاتون لنڈا ابرامز نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ گرفت میں آنے کے باوجود بھی حملہ آور مسٹر رشدی پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
محترمہ ابرامز نے کہا، ’’اسے کھینچنے میں پانچ آدمی لگے اور وہ تب تک بھی چھرا گھونپ رہا تھا۔ وہ بس غصے سے بھرا تھا، جیسے شدید طور پر مضبوط اور بہت تیز طرار ہو۔‘‘
مصنف سلمان رشدی کے ایک ایجنٹ اینڈریو وائلی نے بعد میں بتایا کہ رشدی اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں اور جمعے کی شام تک بولنے سے قاصر تھے۔ انہوں نے کہا،’’کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ شاید سلمان کی ایک آنکھ ضائع ہو جائے گی۔ ان کے بازو کی نسیں کٹی ہوئی تھیں اور پیٹ پر چاقو کے حملے سے ان کے جگر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔‘‘
حکام کا کہنا ہے کہ مسٹر رشدی کی گردن اور پیٹ پر کم سے کم ایک ایک بار وار کیا گیا، جنہیں بعد میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پنسلوینیا کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔
حملہ آور پولیس کی حراست میں
مبینہ حملہ آور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے بعد میں مشتبہ شخص کی شناخت نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے ایک 24 سالہ ہادی مطار کے طور پر کی۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے پہلے سے کسی طرح کی دھمکیوں کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ البتہ اس بات کی تصدیق کی کہ حملہ آور کے پاس تقریب میں شرکت کے لیے پاس موجود تھا۔
الجزائر سے تعلق رکھنے والے مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن انور رحمانی بھی سامعین میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے محسوس کیا کہ ہمیں وہاں اور زیادہ حفاظت کی ضرورت تھی، کیونکہ سلمان رشدی کوئی عام مصنف تو ہیں نہیں۔ وہ تو ایک ایسے مصنف ہیں جن کے خلاف فتویٰ جاری ہے۔‘‘
اشتہار
جان سے مارنے کی دھمکیاں
بھارتی نژاد ناول نگار سلمان رشدی نے سن 1981 میں اپنی ایک کتاب ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی تھی۔ صرف برطانیہ میں اس کتاب کی دس لاکھ سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔ تاہم سن 1988 میں آنے والی ان کی چوتھی کتاب ’سیٹینک ورسیز‘ نے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا، جس سے مسلمان خاص طور پر ناراض ہو گئے۔
اس کتاب کی وجہ سے ان کے خلاف موت کے فتوے جاری کیے گئے اور نتیجتا رشدی کو تقریبا دس برس تک روپوش رہنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایرانی رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بھی ایک "فتویٰ" جاری کیا تھا، جس میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت رشدی کو مار دینے کی بات کہی گئی تھی۔ حالانکہ بعد میں ایرانی حکومت نے اس فتوے سے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا۔
75 سالہ رشدی بھارت کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، تاہم وہ ایک ملحد کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں۔ فتویٰ جاری ہونے کے بعد تو رشدی روپوش ہو گئے تھے، تاہم گزشتہ کئی برسوں سے وہ کھلے عام زندگی گزار رہے تھے۔
سن 2016 میں انہوں نے امریکی شہریت حاصل کی تھی اور تبھی سے وہ نیویارک شہر میں رہتے آئے ہیں۔
حملے پر رد عمل
سلمان رشدی کو ان کے کام کے لیے عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ ان کی کتاب "مڈ نائٹ چلڈرن" کے لیے سن 1981 میں انہیں بوکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ سن 2007 میں ادب کی خدمات کے لیے انہیں نائٹ ہوڈ کا خطاب بھی دیا گیا۔
امریکہ میں آزادی اظہار رائے کی وکالت کرنے والے ایک معروف گروپ پین (پی ای این) کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد "صدمے اور خوف سے دوچار ہے۔" خود رشدی بھی اس تنظیم کے صدر رہ چکے ہیں۔
تنظیم کی چیف ایگزیکٹیو سوزان نوسل نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’سلمان رشدی کو کئی دہائیوں سے محض ان کے الفاظ کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، تاہم وہ کبھی نہیں جھکے اور نہ ہی کمزور پڑے۔‘‘
فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ رشدی ’’نفرت اور بربریت کا شکار ہوئے ہیں۔ عالمگیر سطح پر ان کی لڑائی ہماری ہے، آج ہم پہلے سے زیادہ ان کے ساتھ ہیں۔‘‘
ص ز/ب ج (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
فرینکفرٹ کتاب میلے کے ستر سال
جرمن شہر فرینکفرٹ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں پہلی بار ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا تھا، جو اب یورپ کے سب سے بڑا کتاب میلا بن چکا ہے۔ دیکھیے فرینکفرٹ کتاب میلے کی ستر سالہ تاریخ کے بارے میں تصویری جھلکیاں۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
فرینکفرٹ میں ایک نیا آغاز
فولڈنگ کرسیاں اور عارضی طور پر سجائی گئی کتابوں کی الماریاں۔ ستمبر 1949ء میں فرینکفرٹ میں ہونے والے پہلے کتاب میلے نے حاضرین کو جرمنی کے ادبی ذخیرے کی ایک جھلک پیش کی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں علیحدگی کی وجہ سے فرینکفرٹ (مغربی جرمنی) میں اور لائپزگ (مشرقی جرمنی) میں دو مخلتف کتاب میلوں کا آغاز ہوا۔
تصویر: picture-alliance/R. Koll
ادب سے محبت
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے قیام کے فوراﹰ بعد اسٹاک ایکسچینج کی تنظیموں اور پر عزم کتاب فروشوں نے فرینکفرٹ کتاب میلے کا آغاز کیا۔ سن 1949 میں 18 سے 23 ستمبر تک ناشرین، مصنفین اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں نے نہ صرف 200 سے زائد نمائش کنندگان کی اس خصوصی پیشکش کو دیکھا بلکہ آپس میں رابطے بھی قائم کیے۔ فرینکفرٹ کے پاؤل کیتھیڈرل میں 8500 کتابوں کی نمائش کی گئی، جس میں 14 ہزار افراد نے شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/frm
کیتھیڈرل سے نمائش گاہ میں منتقلی
جرمن عوام کی دیگر ممالک کی غیر سنسر شدہ ثقافت اور ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ سن 1951 میں فرینکفرٹ کتاب میلے کو ایک بڑی نمائش گاہ میں منتقل کر دیا گیا۔ دو برس بعد سن 1953 میں فرینکفرٹ کتاب میلے میں غیر ملکی پبلشرز کی تعداد جرمن پبلشرز کی تعداد سے بھی زیادہ ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
فٹ بال کے مداح
سن 1954 کے فٹ بال ورلڈکپ میں جرمنی کی فتح کے بعد عوام میں فٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ فرینکفرٹ کتاب میلے میں جرمنی کے اہم ترین ناشر ’ بُردا فَیرلاگ‘ کے نمائندوں نے بھی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح کی جرسیاں اور شارٹس پہن رکھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
گولڈن اکتوبر میں کتاب میلہ
سردیوں کی آمد سے قبل درختوں سے جھڑتے سنہری پتوں کے رومانوی مناظر سے بھرے گولڈن اکتوبر کے مہینے میں فرینکفرٹ کتاب میلے کا انعقاد جلد ہی ایک روایت بن گیا۔ تاہم مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں سال نو کے آغاز پر کتاب میلہ منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے شائقین دونوں میلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ سن 1957 میں قریب 1300 ناشرین نے اس میلے میں اپنی نئی کتابیں پیش کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
اشاعت کے لائسنس کے لیے اہم تجارتی مقام
جرمن پبلشرز کی نئی اشاعتیں وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عکاسی کرتی تھیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں نہ صرف ادب اور روشن خیال کتابیں پیش کی جاتی تھیں بلکہ 1960ء کی دہائی کے وسط سے ’گائیڈ بکس‘ اور قیمتی معیاری کاغذ پر شائع کی گئی مشہور کتابیں بھی دستیاب ہونے لگی تھیں۔ اس دوران فرینکفرٹ بین الاقوامی کاپی رائٹس ٹریڈ کا مرکز بن گیا کیونکہ تب تک کتاب کو ایک قیمتی شے کے طور تسلیم شدہ حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Koll
مزاحمتی ادب
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں طلبہ کی طرف سے احتجاج کے دور نے بھی فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے پر اپنے اثرات چھوڑے اور سن 1968 کے میلے کو ’پولیس میلے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مظاہرین سینیگال کے صدر سینگور کو امن انعام دیے جانے پر برہم تھے۔ کتاب میلے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی کیونکہ بائیں بازو کے ناشرین کے خلاف بھی مظاہرے کیے جا رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Heuse
فرینکفرٹ کتاب میلے میں سلمان رشدی کی شرکت
سن 1988میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹَینک ورسِز‘ کی اشاعت کے بعد مسلم ممالک کے متعدد علماء کی طرف سے ان کے قتل کے فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ اس کے اگلے برس فرینکفرٹ کتاب میلے کے منتظمین کی جانب سے اسلامی دنیا میں بہت متنازعہ سمجھے جانے والے مصنف سلمان رشدی کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا جانا بین الاقوامی اخبارات میں سرخیوں کی وجہ بنا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Eilmes
نوبل ادب انعام کے حق دار پیٹر ہانڈکے
سن 2019 میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیے جانے والے آسٹریا کے ڈرامہ نویس اور ناول نگار پیٹر ہانڈکے کی کتابیں بھی فرینکفرٹ کتاب میلے میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ پیٹر ہانڈکے ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سرب جنگی لیڈر سلوبوڈان میلوشےوچ کی تدفین میں شرکت تھی اور اس سے قبل بلقان کی جنگ کے دوران پیٹر ہانڈکے کا سربیا نواز موقف اور ان کی کتاب ’جسٹس فار سربیا‘ بھی۔
تصویر: Imago/Agencia EFE/C. Cabrera
خاص بات: خصوصی مہمان ملک
سن 1988 سے فرینکفرٹ کتاب میلے میں ہر سال کسی نہ کسی ایک ملک کو بطور خصوصی مہمان منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو اپنے ہاں کی ادبی تخلیقات کو پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس مرتبہ سال 2019ء کے میلے کا خصوصی مہمان ملک ناروے ہو گا۔ سن 2006 میں خصوصی مہمان ملک بھارت تھا، جس نے فرینکفرٹ میں ہندی زبان کو متعارف کرانے کی کوشش بھی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
کتابیں سب کے لیے
فرینکفرٹ کتاب میلے میں مہمان ممالک کے ادب پاروں کو تراجم کے ساتھ پیش کرنے پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لہٰذا تراجم اور ان کے حقوق اشاعت کی خرید و فروخت کے حوالے سے رابطوں کے لیے بھی یہ میلہ انتہائی اہم ہے۔ اس سال 70 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں تین لاکھ نوے ہزار کتابیں، آڈیو بکس، ای بکس اور دیگر روایتی اور ڈیجیٹل مصنوعات نمائش کے لیے رکھی جائیں گی۔