مصنوعی ذہانت سےدنیا کو لاحق خطرات، ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ
10 جنوری 2024بُدھ کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ورلڈ اکنامک فورم جدید ترین مصنوعی ذہانت کے استعمال اور اس سے پھیلائی جانے والی گمراہ کُن معلومات کے طویل المدتی اثرات میں ماحولیاتی خطرات کا ذکر بھی کیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی یہ تازہ ترین 'گلوبل رسک رپورٹ ‘ ہے۔ اس رپورٹ کو اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسے اس بار کے سالانہ ''ڈاووس اجلاس‘‘ سے قبل جاری کیا گیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کیا ہے؟
یہ ایک انٹرنیشنل این جی او یا غیر سرکاری ادارہ ہے، جو پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کے تعاون سے سوئٹرزلینڈ کے انتہائی خوبصورت اور امیر ترین برادری پر مشتمل ضلع ' کولونی‘ میں 24 جنوری 1971 ء میں قائم کیا گیا تھا۔
اس کے بانی ایک جرمن انجینیئر کلاؤس شوآب تھے۔ اسے لابیئنگ آرگنائزیشن بھی کہا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مشن کاروبار، سیاسی، علمی اور صنعتی شعبوں کے ایجنڈوں کو شامل کرکے دنیا کی پالیسی سازی پر اثرانداز ہونا ہے تاکہ دنیا کی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ ملٹی اسٹیک ہولڈر گورننس ماڈل کو فروغ دیتا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم ہر سال سوئٹزرلینڈ کی حسین وادی ڈاووس میں منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ وادی کوہ الپس کے سوئس حصے میں واقع ہے۔ اس اجلاس میں دنیا کی 'ایلیٹ کلاس‘، یعنی دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای اووز سمیت عالمی رہنما شرکت کرتے ہیں۔
تازہ ترین رپورٹ
تازہ ترین عالمی خطرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں اس تنظیم نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تباہی طویل عرصے میں سب سے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس سال یعنی 2024 ء کے ڈاووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے انعقاد سے قبل جاری کی گئی یہ رپورٹ تقریباً 1,500 ماہرین، صنعت کے رہنماؤں اور پالیسی سازوں کی رائے پر مبنی سروے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں دنیا کو آئندہ دو سالوں کے اندر سب سے زیادہ لاحق خطرے کا منبع 'مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن‘ یعنی غلط اور گمراہ کن معلومات کو قرار دیا گیا ہے۔ مزید اس امر کو بھی اجا گر کیا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی یا اس شعبے میں ہونے والی پیش رفت سے موجودہ مسائل سنگین تر ہو گئے ہیں جبکہ اس سے نئے نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین نے تشویش ظاہر کی ہے کہ مصنوعی ذہانت یا اے آئی چیٹ بوٹس جیسے کہ ChatGPT سے انتہائی نفیس مگر مصنوعی مواد تیار کیا جا رہا ہے جو انسانوں کے گروپوں کے ساتھ جوڑ توڑ کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے تاہم اس کا استعمال اب خاص مہارت رکھنے والوں تک محدود نہیں رہا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت AI سے پھیلنے والی غلط معلومات اب ایک خطرے کے طور پر ابھر رہی ہیں۔
اے آئی کے عروج سے بہت سے خطرات
اس رپورٹ کے شریک مصنفین میں مارش مک لینن کمپنی کی رسک مینیجمنٹ لیڈر کیرولینا کلنٹ اور زیورش انشورنس گروپ کے ماہرین شامل ہیں۔ کیرولینا نے اے آئی کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا،''آپ ڈیپ فیکس کے لیے AI سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانوں کے بڑے بڑے گروپس پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں کیونکہ یہی گروپس غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔‘‘
کلنٹ کا مزید کہنا تھا، '' اس سے معاشرے مزید پولرائزڈ ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو کو حقائق کی تصدیق مشکل لگتی ہے اور یوں جعلی معلومات بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔‘‘ کیرولینا کلنٹ کے بقول، '' فیک یا غلط معلومات منتخب حکومتوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات کو ایندھن کے مانند بروئے کار لا سکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری عمل کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی پولرائزیشن یا تقسیم کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔‘‘
اے آئی کے خطرات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کیرولینا کلنٹ نے کہا، ''یہ ٹیکنالوجی بد نیت کرداروں کو بااختیار بنا سکتی ہے، سائبر حملوں کو آسان بنا کر فریب دہی کی کوششوں کو خودکار بنانا یا جدید میل ویئر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ سے دوسرا سب سے بڑا قلیل المدتی خطرہ 'موسم کی شدت‘ ہوگا۔
آئندہ ڈاووس اجلاس
AI اگلے ہفتے ڈاووس اجلاس میں ایک گرما گرم موضوع بننے والا ہے۔ جس میں ٹیک کمپنی کے مالکان بشمول OpenAI کے نمائندوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔ سی ای او سیم آلٹ مین، مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیہ ناڈیلا اور اے آئی انڈسٹری کے اہم کھلاڑی جیسا کہ میٹا کے چیف اے آئی سائنسدان یان لیکون بھی 2024 ء کے سالانہ ڈاووس فورم میں شرکت کریں گے۔
ک م/ ع ب(اے پی، اے ایف پی)