روس میں صدارتی انتخابات کا انعقاد اٹھارہ مارچ کو کیا جا رہا ہے۔ قوی توقع ہے کہ اس مرتبہ بھی ولادیمر پوٹن کامیابی حاصل کر لیں گے۔ گزشتہ اٹھارہ برس سے برسر اقتدار پوٹن اس انتخابی معرکے کے لیے پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔
اشتہار
روسی دارالحکومت ماسکو میں حال ہی میں ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا، جس میں صدر ولادیمیر پوٹن نے عوام کی ایک بڑی تعداد سے خطاب بھی کیا۔ ماسکو کے مشہور پوژنیکی فٹ بال اسٹیڈیم میں چار مارچ کو منعقد ہوئی اس رنگا رنگ تقریب میں اسٹیڈیم میں 80 ہزار افراد موجود تھے جبکہ سرکاری میڈیا کے مطابق پچاس ہزار کے قریب افراد اس فٹ بال اسٹیڈیم کے ارد گرد جمع تھے۔ اس موقع پر لوگوں نے بینر اٹھا رکھے تھے، جن پر تحریر تھا، ’’مضبوط صدر، مضبوط روس‘۔
ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ حکومتی مشنری نے اتنی بڑی تعداد کو پوٹن کی اس سرکاری انتخابی ریلی میں شرکت کرنے پر مجبور کیا۔ تاہم پوٹن کی انتخابی مہم کے ترجمان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔ اس تقریب میں پوٹن کا خطاب صرف چھ منٹ طویل تھا، جس میں انہوں نے زور دیا کہ روسی عوام اپنے مستقبل اور بچوں کو محفوظ بنانے کی خاطر انہیں ایک مرتبہ پھر صدر منتخب کریں۔
پوٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عوامی اجتماعات سے اجتناب کرتے ہیں اور اپنے جذبات اور خیالات کو اپنے تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ تاہم صدارتی انتخابات سے قبل پوٹن اس طرح کے اجتماعات پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اگر اس الیکشن میں وہ کامیاب ہوتے ہیں تو وہ مجموعی طور پر چوتھی مرتبہ صدر کے منصب پر فائز ہو جائیں گے۔ ناقدین کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ صدر پوٹن اس بار بھی واضح برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
ولادیمیر پوٹن کے مختلف چہرے
امریکی جریدے ’فوربز‘ نے اپنی سالانہ درجہ بندی میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ اس فہرست میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے نمبر پر ہیں۔ دیکھتے ہیں، پوٹن کی شخصیت کے مختلف پہلو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کے جی بی سے کریملن تک
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ء کے عشرے میں اُن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب اُنہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو اُن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Klimentyev
پہلا دورِ صدارت
یلسن کی حکومت میں پوٹن کی تقرری کے وقت زیادہ تر روسی شہری اُن سے ناواقف تھے۔ یہ صورتِ حال اگست 1999ء میں تبدیل ہو گئی جب چیچنیہ کے مسلح افراد نے ہمسایہ روسی علاقے داغستان پر حملہ کیا۔ صدر یلسن نے کے جی بی کے سابق افسر پوٹن کو بھیجا تاکہ وہ چیچنیہ کو پھر سے مرکزی حکومت کے مکمل کنٹرول میں لائیں۔ سالِ نو کے موقع پر یلسن نے غیر متوقع طور پر استعفیٰ دے دیا اور پوٹن کو قائم مقام صدر بنا دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images
میڈیا میں نمایاں کوریج
سوچی میں آئس ہاکی کے ایک نمائشی میچ میں پوٹن کی ٹیم کو چھ کے مقابلے میں اٹھارہ گول سے فتح حاصل ہوئی۔ ان میں سے اکٹھے آٹھ گول صدر پوٹن نے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Nikolsky
اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغنیں
اپوزیشن کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ایک شخص نے منہ پر ٹیپ چسپاں کر رکھی ہے، جس پر ’پوٹن‘ لکھا ہے۔ 2013ء میں ماسکو حکومت نے سرکاری نیوز ایجنسی آر آئی اے نوووستی کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کا اعلان کرتے ہوئے اُس کا کنٹرول ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دیا، جسے مغربی دنیا کا سخت ناقد سمجھا جاتا تھا۔ ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے پریس فریڈم کے اعتبار سے 178 ملکوں کی فہرست میں روس کو 148 ویں نمبر پر رکھا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/V.Maximov
پوٹن کی ساکھ، اے مَین آف ایکشن
روس میں پوٹن کی مقبولیت میں اس بات کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کہ وہ کے جی بی کے ایک سابق جاسوس اور عملی طور پر سرگرم شخص ہیں۔ اُن کی شخصیت کے اس پہلو کو ایسی تصاویر کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اُنہیں برہنہ چھاتی کے ساتھ یا کسی گھوڑے کی پُشت پر یا پھر جُوڈو کھیلتے دکھایا جاتا ہے۔ روس میں استحکام لانے پر پوٹن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن آمرانہ طرزِ حکمرانی پر اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Nikoskyi
دم گھونٹ دینے والی جمہوریت
2007ء کے پارلیمانی انتخابات میں صدر پوٹن کی جماعت ’یونائیٹڈ رَشیا‘ نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناقدین نے کہا تھا کہ یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی جمہوری۔ صدر پوٹن پر دم گھونٹ دینے والی جمہوریت کا الزام لگانے والوں نے جلوس نکالے تو پولیس نے اُن جلوسوں کو منتشر کر دیا اور درجنوں مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ اس جلوس میں ایک پوسٹر پر لکھا ہے:’’شکریہ، نہیں۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/Y.Kadobnov
پوٹن بطور ایک مہم جُو
سیواستوپول (کریمیا) میں پوٹن بحیرہٴ اسود کے پانیوں میں ایک ریسرچ آبدوز کی کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں۔ اِس مِنی آبدوز میں غوطہ خوری اُن کا محض ایک کرتب تھا۔ انہیں جنگلی شیروں کے ساتھ گھومتے پھرتے یا پھر بقا کے خطرے سے دوچار بگلوں کے ساتھ اُڑتے بھی دکھایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوام میں اُن کی بطور ایک ایسے مہم جُو ساکھ کو پختہ کر دیا جائے، جسے جبراً ساتھ ملائے ہوئے علاقے کریمیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Novosti/RIA Novosti/Kremlin
7 تصاویر1 | 7
سابقہ سوویت خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابق رکن پوٹن نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والی افراتقری کے باعث مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی کئی منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ وفاق روس کے معرض وجود میں آنے کے بعد نو سال تک روس کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران ولادیمیر پوٹن روسی سیاست کے منظر نامے پر ابھرے اور روسی عوام کے لیے ایک ’مسیحا‘ بن گئے۔
ولادیمیر پوٹن کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں روس کی اقتصادی ترقی کی رفتار بہت بہتر رہی۔ اسی دوران انہوں نے اپنی سیاسی گرفت بھی مضبوط کی۔ تاہم یہ امر بحث طلب ہے کہ پوٹن کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی روسی معیشت میں بہتری پیدا ہوئی، کیونکہ روس قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور اکسیویں صدی میں عالمی اقتصادی ترقی کی وجہ سے روسی منڈیوں کو بھی عالمی توجہ ملنا لازمی امر ہی تھا۔ تاہم پوٹن کے حامی متعدد افراد کو ڈر ہے کہ پوٹن کے جانے سے ان کا ملک نوے کی دہائی والی صورتحال کا شکار ہو سکتا ہے۔