مضبوط یورو زون ترقی پذیر ممالک کے حق میں ہے، بھارتی وزیراعظم
11 اپریل 2013یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے ملک اور ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت بھارت کے درمیان معاشی تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
منموہن سنگھ اور انگیلا میرکل نے مئی 2011ء میں انڈو جرمن انٹر گورنمنٹل کنسلٹیشن کے نام سے باہمی رابطہ کاری کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے کابینہ کے وزراء ہر دو برس بعد ملاقات کرتے ہیں۔ جرمنی اس سے قبل اس طرح کے تعلقات محض یورپی ہمسایوں، چین اور اسرائیل کے ساتھ ہی رکھتا ہے۔
یورو زون کو درپیش اقتصادی بحران کے دور میں ایک طرف یورپ کی سب سے بڑی اور طاقت ور ترین معیشت کا حامل ملک جرمنی تیزی سے ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے تعلقات بڑھانے کی کوششوں میں ہے، تو دوسری جانب بھارت قابل تجدید توانائی اور تعلیم کے میدان میں جرمن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کا متمنی ہے۔
اسی دو طرفہ رابطہ کاری کے تحت بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ برلن میں ہیں۔ برلن میں چانسلر انگلیلا میرکل کے دفتر پہنچنے پر منموہن سنگھ کا شاندار ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا اور انہیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں کی اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ہمراہ ملاقات کے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا تھا، ’’جرمنی نے بار بار یہ تجربہ کیا ہے کہ ہم نے جب کبھی بھی کوئی آزاد تجارتی معاہدہ کیا ہے تو مجموعی تجارتی حجم میں بہتری آئی ہے اور ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ یورو زون بلاک دنیا کے لیے پریشانی کا باعث رہے۔
دوسری طرف منموہن سنگھ کا موقف تھا کہ یورو زون کا بحران عالمی معیشت کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے: ’’ایک مضبوط یورو زون ترقی پذیر ممالک کے مفاد میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کثیر الجہتی تجارتی نظام مضبوط رہے۔ لیکن اگر عالمی اقتصادی نظام کے کسی اہم جزو مثلاﹰ یورو زون کو کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو یہ نظام مضبوط نہیں رہ سکتا۔‘‘
جرمنی اور بھارت کے درمیان باہمی تجارتی حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق سن 2011ء کے دوران دونوں ممالک کی مابین تجارت کا حجم 18.4 بلین یورو رہا تھا۔
جرمنی اور بھارت کے رہنماؤں کی اس ملاقات میں افغانستان کے علاوہ علاقائی صورتحال سمیت ایران اور کوریا کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
aba/mm (AFP, dpa)