سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان خواہ مخواہ محاذآرائی پیدا کر رہے ہیں۔
اشتہار
جیمز میٹِس نے کہا،''میں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ امریکی فوجیوں کو حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ جس انداز سے نسلی امتیاز کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں اس پر انہیں ''غصہ اور حیرت‘‘ ہے۔
جیمز میٹِس سن دو ہزار اٹھارہ تک واشنگٹن میں امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون کے سربراہ رہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے شام سے امریکی فوجیں نکالنے کے فیصلے پر وزارت دفاع سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تب سے وہ صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے سے گریز کرتے آئے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ وہ ایک موجودہ صدر کے خلاف بات نہیں کریں گے۔
تاہم بدھ کو دی ایٹلانٹک میگزین میں شائع ہونے والے بیان میں انہوں نے الزام لگایا کہ صدر ٹرمپ لوگوں کو تقسیم اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا،''ڈونلڈ ٹرمپ میری زندگی میں وہ پہلے صدر ہیں جو امریکیوں کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کرتے، دکھاوے کے لیے بھی نہیں۔ الٹا وہ ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
جیمز میٹِس نے کہا کہ یہ حالات پچھلے تین سال کے دوران ایک ناپختہ قیادت کا شاخسانہ ہیں۔
ان کے بیان کے جواب میں صدر ٹرمپ نے بھی اپنے سابق وزیر دفاع کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے جیمز میٹِس کے بارے میں کہا کہ وہ اتنے باصلاحیت جنرل نہیں تھے جتنے سمجھے جاتے ہیں اور اچھا ہی ہوا کہ اب وہ اس عہدے پر نہیں۔
اپنی ایک ٹوئیٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا، ’’مجھے نہ ان کی طرز قیادت پسند تھی، نہ ہی ان کے بارے میں کچھ اور۔ اس بات پر کئی لوگ متفق ہیں۔ خوشی ہے کہ وہ فارغ ہو گئے۔‘‘
امریکا میں سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک کے چالیس سے زائد شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ پچھلے نو دن کے دوران بیشتر مظاہرے پرامن رہے۔ لیکن کئی شہروں میں نسلی تعصب کے خلاف غم و غصے کی لہر میں ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پیش آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امن و امن کے قیام کے لیے بارہا امریکی فوجی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔