بحرین کے میڈیا نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ماناما حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس الزام سے خلیجی ممالک اور قطر کے مابین جاری سفارتی بحران مزید شدید ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بحرین کے سرکاری ٹیلی وژن کے حوالے سے بتایا ہے کہ دوحہ حکومت نے خلیجی ریاست بحرین میں حکومت مخالف مظاہرین کو ہوا دی۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ دراصل قطری حکومت بحرین حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں تھی۔ تاہم دوحہ حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
سرکاری ٹیلی وژن میں بدھ کے دن نشر کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق بحرین میں گزشتہ چھ سالوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے دوحہ حکومت کا ہی ہاتھ تھا۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں قطری وزیر اعظم نے بحرینی اپوزیشن اتحاد الوفاق کے رہنما علی سلمان سے رابطہ کیا تھا، جس میں انہیں کہا گیا تھا وہ ملکی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کریں۔
قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟
02:37
اس نشریاتی رپورٹ میں بحرین میں صحافیوں کی انجمن کے سربراہ مونس المرضی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مطابق اس رپورٹ میں بیان کیے جانے والے شواہد کی بنیاد پر دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ملک قطر کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کی جانا چاہیے۔
بحرین میں شیعہ آبادی کی اکثریت ہے تاہم وہاں حکمرانی سنی اقلیت کے پاس ہے۔
عرب اسپرنگ کے نتیجے میں بحرین میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جسے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کچل دیا گیا تھا۔
تاہم بحرین میں اب بھی گاہے بگاہے شیعہ اکثریت مختلف مظاہرے کرتی رہتی ہے۔ بحرین میں شیعہ حلقوں کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد ’الوفاق‘ ہے، جس کے ارکان پارلیمان نے سن دو ہزار گیارہ میں مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک پر احتجاجی طور پر ایوان زیریں سے استعفے دے دیے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ بحرین کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے۔ اسی الزام کی وجہ سے سعودی اتحاد میں ان ممالک نے جون میں قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
اس سیاسی بحران کے حل کی کوششوں کی خاطر عالمی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں۔ تاہم اس تازہ الزام کے نتیجے میں اس بحران میں شدت کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں بحرین کی ایک عدالت نے الوفاق کو تحلیل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ملک میں دہشت گردوں کی مدد گار تھی۔ اس کے بعد اس گروہ کے سربراہ علی سلیمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو سن دو ہزار چودہ سے جیل میں ہیں۔
اسی طرح بحرینی حکومت نے اپوزیشن کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی جیل کی سزائیں سنائیں اور کچھ کی تو ملکی شہریت بھی منسوخ کر دی گئی۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔