مظاہرین کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہوگی، مصری نائب صدر
8 فروری 2011قاہرہ کے التحریر چوک میں احتجاج میں مصروف مظاہرین نے ان اعلانات کو حکومت کی طرف سے وقت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ادھورے انقلاب کی تکمیل تک ان کا احتجاج جاری رہے گا۔
مصری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور اخوان المسلمین سمیت اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کی سربراہی کرنے والے عمر سلیمان کے مطابق، ’’اقتدار کے پرامن اور منظم انتقال کے لیے ایک واضح روڈ میپ اور ٹائم ٹیبل تیار کر لیے گئے ہیں۔‘‘
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات اتوار کے روز ہوئے۔ ان مذاکرات کے بارے میں صدر حسنی مبارک کو بریفنگ دینے کے بعد عمر سلیمان نے ملکی ٹیلی وژن پر کہا تھا، ’’صدر نے قومی اتفاق رائے کو خوش آمدید کہا ہے۔ انہوں نے ملک کو درپیش موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اسے ایک درست قدم قرار دیا ہے۔‘‘
اس سے قبل مصر کی نو منتخب کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا۔ نئی حکومت کی طرف سے دوہفتوں سے جاری سیاسی بحران اور مظاہروں کے نتیجے میں نجی املاک اور تجارت کو پہنچنے والے نقصانات کے مالی ازالے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مصر کے بحران کے حل کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مذاکرات میں کسی حد تک کامیابی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے اس امر کا اعتراف کیا کہ مصر سمیت دیگر ممالک میں بھی مصر کے بحران کے حل کے لیے جاری عمل کے مؤثر اور معتبر ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ کراؤلی نے ایک بریفنگ کے دوران کہا، 'ہمارا مشورہ یہ ہے کہ نو منتخب عبوری حکومت کے سنجیدہ ہونےکا اندازہ لگایا جائے۔‘
دریں اثناء ہیومن رائٹس واچ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مصر کے ہنگاموں کے دوران اب تک ہونے والی اموات کی کُل تعداد 300 سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک