مظاہرین کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، ایرانی مذہبی رہنما
عابد حسین
29 دسمبر 2017
ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد کے اعلیٰ ترین مذہبی عالم نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ مظاہرین کےخلاف سخت اقدامات کرے۔ اس شہر میں مظاہرین مہنگائی کےخلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشتہار
ایران میں مقدس تصور کیے جانے والے شہروں میں سے ایک مشہد کے اعلیٰ ترین مذہبی عالم آیت اللہ احمد عَلم الہدٰی نے شہری انتظامیہ، صوبائی حکومت اور تہران سے کہا ہے کہ وہ اُن افراد کے خلاف سخت اقدامات کرے جو حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایران میں حالیہ مظاہروں کے شرکاء تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں انتہائی زیادہ اضافے کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔
آیت اللہ احمد عَلم الہدٰی کا کہنا ہے کہ اگر سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں مظاہرے کرنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں گے تو ایران دشمن قوتیں ان مظاہروں کی فلمیں اور تصاویر شائع کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گی کہ مشہد میں ایران کے اسلامی انقلاب کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔ عالم الہدٰی شمال مشرقی شہر مشہد میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ علی خامنہ ای کے نمائندے بھی ہیں۔
دوسری جانب ایران کے صدر حسن روحانی کے نائب صدور میں سے ایک اسحاق جہانگیری کا خیال ہے کہ مظاہرین کا تعلق روحانی حکومت کے مخالف قدامت پسند حلقے سے بھی ہو سکتا ہے اور وہ یقینی طور پر صدر کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جہانگیری نے نیوز ایجنسی ارنا (IRNA) سے بات کرتے ہوئےکہا کہ سماجی یا سیاسی تحریک کو جب سڑکوں پر لایا جاتا ہے تو بعض اوقات مظاہرین اس تحریک کے رہنماؤں کے کنٹرول میں بھی نہیں رہتے۔
بتایا گیا ہے کہ ایرانی صوبے رضاوی خراسان میں سینکڑوں افراد مشہد، نیشاپور اور کشمار کے علاقوں میں جمع ہوئے۔ سوشل میڈیا پر ان مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ مشہد میں شہدا چوک پر مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں۔ نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس نے گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد باون بتائی ہے۔
ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
تصویر: cshr.org
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
تصویر: irane emrooz
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
تصویر: humanrights-ir.org
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
تصویر: melliun.org
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔