1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرین ہنگامہ آرائی سے باز رہیں، پاکستانی وزیر داخلہ

شکور رحیم، اسلام آباد22 اگست 2014

پاکستانی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے دینے والے کارکنوں کی سیاسی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہرین نے ریڈ زون کی کسی عمارت میں زبردستی داخلے کی کوشش کی تو ممکنہ خون خرابہ انہی جماعتوں کے سر ہو گا۔

تصویر: DW/S. Raheem

جمعے کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کی آزادیاں وہاں ختم ہو جاتی ہیں، جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔‘‘ چوہدری نثار نے پہلی بار مظاہرین کے بارے میں سخت لب ولہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی کی صورتحال درست نہیں اور دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان اور طاہر القادری لکھ کر دیں کہ سکیورٹی کا کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو وہ خود ذمہ دار ہوں گے، تو حکومت سکیورٹی کے لیے رکھے گئے کینٹیرز فوری طور پر ہٹا لے گی۔

تصویر: DW/S. Raheem

دوسری جانب سیاسی بحران پر قابو پانے کے لیے اعلیٰ سطحی سیاسی روابط جاری ہیں۔ اس ضمن میں سابق صدر اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جانب سے کل بروز ہفتہ ظہرانے کی دعوت قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ان دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات انتہائی اہم ہے۔ سابق صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تصدیق کی ہے کہ آصف علی زرداری نے وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت قبول کر لی ہے اور زرداری کل ہفتے کو وزیر اعظم ہاؤس میں نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔

ادھر جمعے کے روز ہی تحریک انصاف کے ارکان نے اپنے استعفے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں استعفے جمع کرانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نائب چئیرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت مذاکرات سے انکاری نہیں لیکن حکومت کو اس کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا، ’’پنجاب میں ہمارے ہزاروں کارکن اب بھی جیلوں میں بیٹھے ہیں۔ کوئی رہائی نہیں کی گئی۔ دوسرا میرے گھر پر حملہ کیا گیا اور ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی۔ تو ہم نے کہا تھا کہ کم ازکم مذاکرات کے لیے یہ چیزیں تو کریں۔ میں شکر گزار ہوں کہ یہ چیزیں ہو گئی ہیں۔ اب کنٹینرز ہٹا دیں۔ پولیس کریک ڈاؤن ختم کریں۔ ہم سیاسی لوگ ہیں تو مذاکرات کیوں نہیں کریں گے۔‘‘

حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کسی بھی قیمت پر مستعفی نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’وزیر اعظم صاحب استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نہیں دیں گے۔ اور نہیں دیں گے۔ پاکستان کو آزادی 1947 ء میں مل چکی ہے۔ یہ لوگ روز بروز کافی نامناسب باتیں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دن کو دو گھنٹے دھوپ میں بیٹھنے سے اور رات کو بارش میں ناچنے سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ لیکن امید ہے کہ وہ موزوں بات پر آ جائیں گے۔‘‘

وزیر اعظم نواز شریفتصویر: AP

اسی دوران جمعے کے روز کراچی، لاہور، پشاور کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں نے حکومت کے حق میں ریلیوں کا انعقاد کیا۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والی جماعتیں تنہائی کا شکار ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ان کے مطالبات کو تاجروں نے بھی مسترد کر دیا، وکیلوں نے بھی مسترد کر دیا۔ آج سڑکوں پر لوگ آئیں گے۔ پورے ملک میں ان کے (دھرنے دینے والوں کے) خلاف مظاہرے کریں گے۔ تو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

دریں اثناء ملکی سپریم کورٹ نے جمعے کے روز شاہراہ دستور پر دھرنوں کے خلاف مختلف بار ایسوسی ایشنز کی درخواستوں کی سماعت کی۔ تحریک انصاف کی جانب سے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ احتجاج کسی بھی سیاسی جماعت کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ مظاہرین نے کسی کو شاہراہ دستور پر آنے سے نہیں روکا۔ حکومت نے کنٹینرز لگا کر شہریوں کی نقل وحرکت کو بند کیا ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی جانب سے بیرسٹرعلی ظفر ایڈووکیٹ نے جواب جمع کراتے ہوئے کہاکہ یہ سیاسی معاملہ ہے، عدالت مداخلت نہ کرے۔ لاہور میں چودہ شہریوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور کسی کی بھی نقل وحرکت کو نہیں روکا گیا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ عدالت نے عوامی تحریک کے ابتدائی جواب کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کل ہفتے کے دن تک جامع جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت پیر پچیس اگست تک کے لیے ملتوی کر دی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں