1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرے اور دوسروں کے حقوق میں توازن ضروری ہے: بھارتی عدالت

جاوید اختر، نئی دہلی
7 اکتوبر 2020

بھارتی سپریم کورٹ نے اس تبصرہ کے ساتھ کہ اختلاف رائے اور جمہوریت دونوں ہی بھارتی آئین کی خوبیاں ہیں آج ایک اہم فیصلے میں کہا کہ احتجاجی مظاہرے اس طرح کیے جائیں کہ اس سے دوسروں کو پریشانی نہ ہو۔

Indien Delhi Proteste gegen neues Einwanderungsgesetz am Tag der Republik
تصویر: picture-alliance/AA/J. Sultan

بھارتی سپریم کورٹ نے احتجاج کا حق اور عوامی پریشانی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے آج اپنے فیصلے میں کہا کہ احتجاج کرنا بھی عوام کا حق ہے اور کسی پریشانی کے بغیر آمدو رفت بھی عوام کا حق ہے اور ان دونوں حقوق کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

بھارت کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف قومی دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ علاقے میں تین ماہ سے زیادہ عرصے تک مسلسل جاری رہنے والے دھرنے سے متعلق متعدد کیسز کی ایک ساتھ سماعت کے بعد 7 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے کہا کہ عوام کے احتجاج کا حق جمہوریت میں ایک قیمتی حق ہے۔ لیکن اس کے ساتھ متعدد اور بھی حقوق ہیں۔ مثلاً عوام کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ اسے آمد و رفت اور نقل وحمل میں کوئی پریشانی نہ ہو اور ان حقوق کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ دھرنا اور مظاہروں کے نام پرعوامی مقامات اور سڑکوں پر غیرمعینہ مدت کے لیے قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے مزید کہا ”ہم پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں اور یہ صرف نشان زد مقامات پر ہی ہونے چاہئیں۔"

شاہین باغ میں 100 سے زیادہ دنوں تک دھرنا جاری رہاتصویر: DW/Dharvi Vaid

’پرامن احتجاج آئینی حق ہے‘

عدالت کے آج کے اس فیصلے کے حوالے سے بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے متعدد سابقہ فیصلوں میں کہا ہے کہ عوام کو مختلف طریقوں سے پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، انہیں اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مرکزی حکومت اور دہلی پولیس نے پارلیمان کے قریب واقع جنتر منتر علاقے میں مظاہروں پر پابندی لگادی تھی تو سپریم کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے وہاں مظاہروں کی اجازت دے دی تھی۔

اتول کمار انجان کا مزید کہنا تھا کہ 'حکومت، انتظامیہ اور پولیس صرف یہ کہہ کر لوگوں کو کسی مخصوص جگہ پردھرنا دینے سے روک نہیں سکتی کہ یہاں مظاہرے کی اجازت نہیں ہے۔  سپریم کورٹ نے جنتر منتر معاملے میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا پورا حق ہے۔"

بائیں بازو کے رہنما نے تاہم تسلیم کیا کہ اگر تحریک چلانے والے یا مظاہرین تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو حکومت کو یقیناً قانونی کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا تھا، گوکہ احتجاج کا حق شہریوں کا آئینی حق ہے لیکن اسے اس طرح استعمال کیا جانا چاہیے کہ اس سے دیگر شہریوں کو پریشانی نہ ہو۔

تصویر: DW/Dharvi Vaid

اس کیس میں معروف وکیل محمود پراچہ نے تاہم دلیل دی کہ احتجاج کا حق شہریوں کا مطلق حق ہے۔

جب ڈی ڈبلیو اردو نے محمود پراچہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ان کی رائے جاننی چاہی تو پراچہ کا کہنا تھا”جب تک وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اچھی طرح مطالعہ نہیں کرلیں گے اس وقت تک کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ اگر انہیں اس میں کوئی کمی نظر آئی تو اس کے خلاف اپیل کریں گے۔"

محمود پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے جو کیس کیا تھا وہ ایک محدود مقصد کے تحت تھا۔  مقصد یہ تھا کہ شاہین باغ کے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے پولیس فورس کا استعمال نا کیا جائے۔  کیوں کہ اس وقت بی جے پی کے بعض رہنما پولیس فورس کا استعمال کرکے دھرنے پر بیٹھی خواتین کو زبردستی ہٹانے پر زور دے رہے تھے۔

شہریت ترمیمی بل پر اعتراض کیا ہے؟

03:18

This browser does not support the video element.

سپریم کورٹ نے انتظامیہ کی نااہلی پر بھی نکتہ چینی کی اور کہا کہ اسے عدالت کے حکم کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی تمام رکاوٹوں کو دور کردینا چاہئے تھا۔

ایک اور ہتھیار

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بالخصوص ایسے میں جب کہ وزیر اعظم مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اپنے متنازع فیصلوں کے خلاف ہر احتجاج اور اپنے قدامات کے خلاف بلند ہونے والی ہر آواز کو ہر ممکن طریقے سے دبانے کی کوشش کررہی ہے، وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ایک اور ہتھیار کے طورپر استعمال کرسکتی ہے۔

منفرد مظاہرہ

خیال رہے کہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے شاہین باغ علاقے میں خواتین نے 15دسمبر سے ایک منفرد احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا۔ جو انتہائی سردی اور زبردست بارش کے باوجود مسلسل تین ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا اور مارچ میں کورونا کی وجہ سے ملک گیر سخت ترین لاک ڈاون نافذ کیے جانے کے بعد ختم کرنا پڑا۔  اس دھرنے میں بچوں اور نوجوان لڑکیوں کے علاوہ  80 برس سے زیادہ عمر کی خواتین بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ موجود رہیں۔

  شاہین باغ کے دھرنے سے حوصلہ پاکر بھارت کے درجنوں شہروں میں بھی اسی طرح کے دھرنے شروع ہوگئے اور دنیا کے کئی ملکوں میں اس کی گونج سنائی دی۔ حکومت نے اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے مختلف حربے اپنائے، جن میں خواتین پر انتہائی نازیبا الزامات سے لے کر فائرنگ اور پٹرول بم سے حملے تک شامل تھے، تاہم خواتین پورے عزم و حوصلے کے ساتھ ڈٹی رہیں۔

 امریکی جریدہ ٹائم نے شاہین باغ دھرنے میں غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرنے والی 82 سالہ بلقیس بانو کو اس برس دنیا کی 100اہم متاثر کن شخصیات میں شامل کیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں