امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسے دستاویز پر دستخط کیے ہیں جس میں ان تمام شہروں کو وفاقی حکومت کی فنڈنگ میں کمی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے جہاں احتجاتی مظاہروں کے سبب 'افراتفری' کا ماحول ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک ایسے دستاویز پر دستخط کیے ہیں جس میں سیئٹل، پورٹ لینڈاور نیو یارک سمیت ان شہروں کی وفاقی فنڈنگ میں کمی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے جہاں گزشتہ کئی مہینوں سے احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ اس دستاویز میں جن شہروں کو 'لاقانونیت' سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں دارالحکومت واشنگٹن بھی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے جو دستاویز جاری کیا گیاہے اس میں کہا گیا ہے، ''میری انتظامیہ وفاقی ٹیکس سے حاصل شدہ ڈالر کو ان شہروں کو فنڈ دینے کی اجازت نہیں دے گی جو اپنے آپ کو بگڑتی صورت حال سے لاقانونیت کی طرف بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔''
اس میں اٹارنی جنرل ولیئم بار کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس سے متعلق قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیں، کہ جس نے بھی ''تشدد اور املاک کی تباہی کو برقرار رکھنے کی اجازت دی اور مناسب اقدامات کرنے سے گریز کیا'' اس کے خلاف کیا اقدامات کیا جا سکتے ہیں۔
ایک امریکی چینل سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے ولیئم بار نے کہا کہ جسٹس ڈپارٹمنٹ، بایاں بازو کی تنظیم انتیفا کی تحریک اور اس کے احتجاجی مظاہروں سے متعلق بھی چھان بین کر رہا ہے۔ ''میں نے اس بارے میں ہر شہر کے پولیس سربراہ سے بات کی ہے، جہاں پر بھی مظاہرے اور تشدد ہوئے، اور سبھی نے تشدد کی ذمہ داری انتیفا پر ڈالی ہے۔ وہ ملک بھر میں سرگرم ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ملک بھر میں یہ کام کر رہے ہیں۔''
ٹرمپ کے خلاف مظاہرے تیسری رات بھی جاری
امریکی صدارتی انتخانات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی شہروں میں مظاہرین مسلسل تیسرے دن بھی سراپا احتجاج نظر آئے۔ ۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Betancur
امریکی عوام سٹرکوں پر
الیکشن کے بعد مسلسل تیسری رات بھی کئی شہروں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹرمپ کے خلاف نعرے بازی کی اور اپنے تحفظات کو رجسٹر کرایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/The Oregonian/J. Ryan
پولیس کا گشت
ہفتے کی صبح پورٹ لينڈ میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ فائرنگ کس نے کی اور اس واقعے کے پیچھے کیا متحرکات کارفرما تھے۔
تصویر: picture-alliance/The Albuquerque Journal via Zuma
مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش
نیویارک شہر میں بھی ایسے ہی مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے شہر کی فیشن ایبل سٹریٹ ففتھ ایونیو پر واقع ٹرمپ کی رہائش گاہ ’ٹرمپ ٹارو‘ کے باہر بھی احتجاج کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن پورٹ لینڈ میں مظاہرین اور پولیس کے مابین رات بھر آنکھ مچولی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gibbins/The San Diego Union-Tribune
’ٹرمپ میرا صدر نہیں‘
میامی میں بھی ہزاروں لوگ ایسے ہی مظاہرے میں شریک ہوئے اور چند سو افراد ایک بڑی شاہراہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ ان مظاہرین نے اس شاہراہ کی دو طرفہ ٹریفک کو بند کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Lloyd Fox/The Baltimore Sun
خواتین پیش پیش
میامی، اٹلانٹا، فلاڈلیفیا، نیو یارک، سان فرانسسکو، پورٹ لینڈ اور اوریگن میں مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے۔ ان مظاہرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Skinner
’ٹرمپ کا سخت بیانیہ‘
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ نامزد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ مہم کے دوران مہاجرین، مسلمانوں اور خواتین کے خلاف ایک سخت بیانیہ استعمال کیا گیا تھا، جو باعث تشویش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. L. Sanchez/Chicago Tribune
پورٹ لینڈ میں تشدد
پورٹ لینڈ میں ہونے والے مظاہروں کے کے دوران پرتشدد واقعات بھی رونما ہوئے۔ ہفتے کی رات بھی وہاں مظاہریں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ کچھ مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ بھی کی۔
تصویر: Reuters/S. Diapola
’ٹرمپ سے خوف‘
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Gress
کئی مظاہرین گرفتار
جمعے کی رات لاس اینجلس میں پولیس نے دو سو کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔ شکاگو شہر میں ہفتہ بارہ نومبر کو کئی تنظیموں کی جانب سے ٹرمپ مخالف مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma
طلبہ بھی مظاہروں میں شریک
کئی امریکی شہروں کے تعلیمی اداروں کے اندر بھی طلبہ نے اینٹی ٹرمپ احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ٹینیسی کی وانڈربِلٹ یونیورسٹی کے طلبہ نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکا کی سلامتی کے لیے دعائیہ شبینہ عبادت کا اہتمام کیا۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/A. Vigaray
چھوٹے شہروں میں بھی مظاہرے
کئی دوسرے شہروں میں درمیانے درجے کے مظاہرے بھی ہوئے۔ ان میں ڈیٹرائٹ، مینی ایپلس، کنساس سٹی، میسوری، اولمپیا، واشنگٹن ڈی سی اور آئیوا خاص طور پر نمایاں ہیں۔ ان شہروں میں پانچ سو کے لگ بھگ مظاہرین ’نو ٹرمپ‘ والے بڑے بڑے بینر اٹھائے ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Skinner
ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران امریکا میں انسانی حقوق کو زک پہنچ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliances/dpa/M. Reynolds
ٹرمپ کا ردعمل
ان مظاہروں کے خلاف نامزد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابتداء میں کہا تھا کہ یہ میڈیا کا شاخسانہ ہے لیکن اب انہوں نے اس حوالے سے مؤقف تبدیل کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا ہے کہ وہ امریکا کے لیے ایسے جذبات رکھنے والے مظاہرین کی قدر کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Anzuoni
سکیورٹی ہائی الرٹ
پورٹ لینڈ میں مظاہرین نے ٹریفک روکنے کے علاوہ پولیس پر خالی بوتلیں اور پتھر بھی پھینکے۔ ان مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے دھماکے اور روشنی والے گرینیڈز بھی پھینکے۔
تصویر: picture-alliance/AP/T. S. Warren
اوریگن میں افراتفری
اوریگن میں بھی ہفتے کی رات مظاہین کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کریں گے۔
تصویر: Reuters/W. Gagan
15 تصاویر1 | 15
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بعض سفید فام حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے بایاں محاذ کی تنظیم انتیفا کو مسلسل نشانہ بناتے رہے ہیں، جس نے اصل میں آمرانہ طرز حکومت اور امریکا میں نسل پرستی کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے۔
بعض شہروں کے سیاسی رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے وفاقی فنڈنگ روکے جانے کی دھمکی پر شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ نیو یارک کے گورنر انڈریو کومو نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نیویارک کو سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ''انہوں نے کوڈ 19 کو نیویارک پر حملہ کرنے دیا۔ وہ ریاستوں اور شہروں کو فنڈ دینے سے منع کر رہے جو بازیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ کوئی راجا تو ہیں نہیں، وہ نیو یارک کی فنڈنگ نہیں روک سکتے۔ یہ کوشش غیر قانونی ہے۔''
پورٹ لینڈ کے میئر ٹیڈ وہیلر نے بھی ٹرمپ کے اس اعلان پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، '' ممکنہ طور پر وہ صحت، تعلیم اور تحفظ سے متعلق اس فنڈنگ کو روکنے کی بات کر رہے ہیں جو کورونا کی وبا کے دور میں معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی شہریوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ ایک بار پھر انہوں نے ان شہروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے میئرز ہیں۔''
ص ز/ ج ا
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔