16 اپریل 2017
پاپائے روم فرانسس نے مسیحی مذہبی تہوار ایسٹر کی شب اپنے خطاب میں مہاجرین، پناہ گزینوں، استحصال کے شکار اور جنگ سے متاثرہ افراد کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اس موقع پر ویٹیکن کے پیٹرز ڈوم میں ہزاروں افراد کے ساتھ ساتھ کارڈینلز اور بشپس کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اپنے خطاب میں پوپ نے مزید کہا کہ بدعنوانی اور نا انصافی کی وجہ سے مہاجرین، غریب اور پسماندہ افراد کے انسانی وقار کی ہر روز دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔ اس دوران پوپ نے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد کی بپتسمہ ( Baptism ) کی مذہبی رسم بھی ادا کی۔
پوپ نے شام میں دہشت اور قتل و غارت گری کے فوری خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ امن کے پیغام کو سمجھیں۔ اس دوران انہوں نے مشرق وسطیٰ کے خطے کے ساتھ ساتھ عراق اور یمن کے لیے بھی خصوصی دعائیں کیں۔ پوپ نے افریقہ میں خشک سالی اور تنازعات کے شکار ممالک کے شہریوں کو بھی یاد کیا۔ انہوں نے لاطینی امریکا میں سماجی تناؤ کے خاتمے کے لیے بھی دعا کی۔
پوپ نے تمام مسیحیوں پر زور دیاکہ وہ اُن تمام رکاوٹوں کو عبور کریں، جن کی وجہ سے وہ مایوسی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، ’’اس فکری تنہائی سے بھی چھٹکارا پائیں، جو خود ہماری تعمیر کردہ ہے اور جس نے ہمیں زندگی سے الگ کر دیا ہے۔ لازمی تحفظ کی اپنی ضرورت اور لامحدود خواہشات پر بھی قابو پائیں، جو دوسروں کے وقار اور تعظیم پر سمجھوتے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘‘
اس موقع پر پوپ نے تمام مسیحی عقیدت مندوں سے بہتر مستقبل کی امید زندہ رکھنے کے لیے بھی کہا۔ آج ایسٹر سنڈے کے روز پوپ ’اُربی اَیٹ اوربی‘ (’شہر اور دنیا کے نام‘) کے عنوان سے اپنا روایتی خطاب بھی کریں گے اور ایسٹر کا خصوصی پیغام بھی جاری کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایسٹر کی مذہبی تقریبات بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گی۔
اس سال ایسٹر کا مسیحی تہوار اس لیے بھی قابل ذکر ہے کہ اس مرتبہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی کلیسا دونوں یہ تہوار ایک ہی دن منا رہے ہیں۔
جرمنی میں1960ء سے امن پسند حلقے، بنیادی حقوق کے لیے سرگرم شہری اور سماجی ناقدین ایسٹر کے موقع پر جلوس نکالتے ہیں۔ ان جلوسوں کا مقصد مختلف سماجی مسائل کی جانب توجہ مبذول کرانے کے علاوہ دنیا میں قیام امن کی حمایت ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی کئی جرمن شہروں میں ایسی ایسٹر ریلیاں نکالی گئیں۔