1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظلوم کو لاقانونیت کے شکنجے سے کوئی کیسے نکالے؟

30 جنوری 2021

پاکستان میں عام طور پر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ہونے والے افراد کو نا صرف انصاف کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ انہیں سماجی حوالے سے بھی انتہائی نامناسب رویوں کا سامنا ہوتا ہے۔ صبا حسین کا بلاگ

DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

کچھ دن پہلے حیدرآباد کے ایک علاقے میں چار نابالغ بچیوں نے اپنے باپ (جو ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہیں) پر ایف آئی آر درج کروائی۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق باپ اپنی 14 سال کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث ہے۔ ان بچیوں کے مطابق ان کی ماں تین سال قبل وفات پا گئی تھیں اور چونکہ والد ہی واحد سرپرست تھے، تو بچیاں والد کے ساتھ ہی رہائش پذیر تھیں۔

ایف آئی آر درج ہونے پر باپ کو گرفتار کیا گیا اور تحقیقات شروع کر دی گئیں۔ لیکن ایف آئی آر بھی اتنی آسانی سے کہاں درج ہوئی۔ وومن ایکشن فورم حیدرآباد کی رکن امر سندھو کے مطابق ایف آئی آر پولیس نے براہ راست خود درج نہیں کی بلکہ اس کے لیے مسلسل آواز دے دے کر عدالتِ عظمٰی تک کو متوجہ کروانا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ بچیوں نے چیف جسٹس  صاحب کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں۔ چیف جسٹس صاحب نے اس خط کے جواب میں نوٹس لیا اور اللہ اللہ کر کے بچیوں کی ایف آئی آر درج ہوئی۔ خط کی نوبت آنے سے پہلے ہی ایف آئی آر درج کر کے ہم انسان اور قانون دوست ہونے کا ثبوت بھی دے سکتے تھے مگر لگتا ہے کہ ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ انسان دشمنی کے جتنے ریکارڈ ممکن ہوسکے وہ ہم بنائیں گے۔

صبا حسین کی دیگر تحریرین

ریاست کا عورت سے نامحرم جیسا فاصلہ 

ڈاکٹروں اور ہیلتھ کیئر ورکرز پر تشدد سے حاصل کیا ہوتا ہے؟

جنسی جرائم کہیں ہماری روایت کا حصہ تو نہیں؟

 

ایف آئی آر تو درج ہوگئی، اب اگلا مرحلہ آتا ہے۔ابھی کیس کی تحقیقات شروع ہوئی ہی تھیں کہ وومن کمپلین سینٹر کے ایک آفیسر نے بچی کی ذہنی حالت پر سوال اٹھادیا۔ یہ سوال اٹھانے سے پہلے وومن کمپلین سینٹر کے آفیسر کا اس بات کی طرف ہلکا سا خیال بھی نہیں گیا کہ یہ ایک بچی کا ریپ کیس ہے۔ اس کیس میں اس طرح کے سیانے پن والے سوال سے ان چار بچیوں کی نفسیات پر کس قدر منفی اثر ہوسکتا ہے۔

بات یہاں نہیں رکی، کردار کشی کا ایک پورا ایپیسوڈ پھر سوشل میڈیا پر بھی چلا، جس میں چودہ سال کے بچی کی تصویریں پھِلائی گئیں اور ساتھ ہی الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ معاملہ ابھی تفتیش کے مرحلوں سے گزرا بھی نہیں تھا مگر سوشل میڈیا پر لگی عدالتوں میں فیصلے بھی سنا دیے گئے۔ یہ جنسی زیادتیوں کے کیسوں میں سامنے آنے والا وہ اذیت ناک پہلو ہے جس کا سامنا ہمیشہ متاثرہ فرد کو کرنا پڑتا ہے۔  

عدالتی فیصلوں سے پہلے عوامی عدالتوں میں فیصلوں کا ہونا کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس سے ہمارا قانون غافل ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس معاملے کی قانونی حیثیت کو طے کیا جا چکا ہے۔ قانون جنسی زیادتی کے شکار کسی بھی انسان کی کسی بھی طرح کی شناخت کو ظاہر کرنے پر مکمل پابندی لگاتا ہے اور ایسا کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ دفعہ 376 اے کے تحت جو بھی متاثرہ شخص کا نام یا تصویر شائع کرتا ہے یا کوئی بھی معاملہ جس میں کسی بھی قسم کی شناخت ہو سکتی ہے، وہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت قابل سزا جرم تصور ہوتا ہے۔

ہمیں ہر دو چار ہفتوں کے بعد اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتِ حال میں غلط ہونے کے باوجود ہم اتنا مطمئین ہوتے ہیں گویا قانون بھی یہی ہو۔ اس معاملے کی سنگینی اور حساسیت واضح کرنے کے لیے ہمارے پاس شاید ایک بھرپور آگہی مہم کے علاوہ کوئی حل بھی موجود نہیں ہے۔ قوانین موجود ہیں، ان کے حوالے سے شعور موجود نہیں ہے۔

شعور بڑھانے اور آگہی پھیلانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ محض سرکاری گزٹ میں قوانین کی اشاعت کردی جائے اور گھر کی راہ لے لی جائے۔ ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر قانونی بیداری کے پروگرام تشکیل دیے جائیں تاکہ بڑے پیمانے پر جانے انجانے میں ہونے والی قانونی خلاف ورزیوں کی روک تھام ممکن ہوسکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں