معاشرے کا ضمیر: کوڑے دان خالی کرنے والے جاپانی حیران رہ گئے
10 مئی 2020
دنیا بھر میں پھیلی کورونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف عوامی شعبوں میں خدمات انجام دینے والے کارکن کس حد تک تعریف اور شکریے کے حقدار ہیں، اس کی ایک تازہ مثال جاپان میں دیکھنے میں آئی، جس نے بہت سے شہریوں کو حیران کر دیا۔
اشتہار
جاپان میں ٹوکیو سے اتوار دس مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانی حالات میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح 'چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ میں بھی جو کارکن انتہائی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں، ان میں شہری بلدیاتی اداروں کے وہ کارکن بھی پیچھے نہیں ہیں، جو روزانہ بنیادوں پر کوڑے دان خالی کرتے ہیں۔
ماحول دوست شاپنگ بیگز کی دنیا
ایک نئے یورپی ضابطے کے تحت پلاسٹک کے کیریئر بیگز کا استعمال 80 فیصد تک کم کیا جا سکے گا۔ صرف ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی جگہ کپڑے اور کاغذ کے تھیلے بار بار استعمال ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Imago/B. Strenske
ضروری نہیں کہ پلاسٹک ہی ہو
آپ چند کیلے خریدیں، یا چند سیب، فوراً ہی آپ کا ہاتھ پلاسٹک کے شاپر کی طرف جائے گا۔ ہر جرمن شہری سالانہ اوسطاً 71 پلاسٹک بیگز استعمال کرتا ہے۔ تاہم سو فیصد پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز کی بجائے اور کئی طرح کے بیگز استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/pizzicati
پلاسٹک کے شاپرز سے بچیں
پلاسٹک کے ایک ہی بار استعمال ہونے والے شاپرز عام طور پر ایک سو فیصد کیمیائی مادے پولی تھین سے بنے ہوتے ہیں، جسے معدنی خام تیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بیگز ماحول کے لیے بے حد ضرر رساں ہوتے ہیں۔ انہیں گل سڑ کر مکمل طور پر تلف ہونے کے لیے چار سو تا پانچ سو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB
بائیو شاپر بیگز بھی ہمیشہ اچھے نہیں ہوتے
پلاسٹک سے بنے کچھ شاپنگ بیگز ایسے ہوتے ہیں، جنہیں قابل تجدید کہا جاتا ہے۔ انہیں 70 فیصد خام تیل اور 30 فیصد قابل تجدید خام مادوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ انہیں محدود پیمانے پر ہی ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب توانائی کے حصول کے لیے مخصوص زرعی فصلوں کی کاشت بھی ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB
ری سائیکل ہونے والے شاپرز کوڑے میں
ایسے شاپرز بھی ہوتے ہیں، جو 70 فیصد تک ری سائیکل کی گئی پولی تھین سے بنے ہوتے ہیں۔ ایسے شاپرز ایک ہی بار استعمال ہونے والے دیگر شاپرز کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست ہوتے ہیں۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ جرمنی میں زیادہ تر پلاسٹک بیگز ری سائیکلنگ کے عمل سے نہیں گزارے جاتے بلکہ عام کوڑے کرکٹ کے ساتھ پھینک دیے جاتےہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کاغذ سے بنے شاپرز کے مسائل
ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو کاغذ سے بنے شاپرز بھی پلاسٹک بیگز سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں کیونکہ اُن کی تیاری کے لیے خاص طور پر لمبے اور مضبوط ریشے درکار ہوتے ہیں، جنہیں پہلے کیمیائی مادوں سے دھویا جاتا ہے۔ ایسے شاپرز تب ماحول دوست ہوتے ہیں، جب اِنہیں ری سائیکل شُدہ کاغذ سے تیار کیا گیا ہو۔
تصویر: PA/dpa
وہاں بھی نقصان، جہاں توقع نہیں ہوتی
سوتی کپڑے، درختوں کی چھال کے ریشوں یا فلیکس سے بنے بیگز مضبوط ہوتے ہیں، ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال ہو سکتے ہیں اور یوں ماحول دوست ہوتے ہیں تاہم ا یک ہی بار استعمال ہونے والے شاپرز کے مقابلے میں ان کے لیے زیادہ مواد اور زیادہ توانائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ویسے بھی ان کے لیے درکار پودے بہت سا پانی اور وسائل خرچ کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Robert Kneschke
پولی پروپین والے شاپرز پھر بھی بہتر
کیمیائی مادوں پولی پروپین یا پولیسٹر سے بنے ہوئے شاپنگ بیگز، جو ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال ہو سکتے ہیں، کپڑے سے بنے شاپرز سے بُرے ہرگز نہیں ہیں۔ پولی پروپین سے بنا شاپر تین بار کے استعمال کے بعد ہی پولی تھین کے کسی ایسے شاپر کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست بن جاتا ہے، جسے ایک ہی بار استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔
تصویر: DUH
تو کون سا شاپر جیتا ...
پولیسٹر سے تیار کیے گئے ایسے شاپر کو ماحول دوست کہا جا سکتا ہے، جسے ایک سے زیادہ بار استعمال کیا جا سکتا ہو اور جسے تہہ کیا جائے تو وہ ایک ہتھیلی میں پورا آ جاتا ہے۔ اپنے تقریباً تیس گرام وزن کے ساتھ یہ ایک بار استعمال ہونے والے بہت سے پلاسٹک شاپرز سے ہلکا بھی ہوتا ہے، پھر بھی یہ دَس کلوگرام تک وزن اٹھا سکتا ہے۔
تصویر: DUH
8 تصاویر1 | 8
جاپان کے شہر کاراتسُو میں عام شہریوں کے گھروں کے باہر کوڑے دان خالی کرنے والے مقامی بلدیہ کے ملازمین کی خدمات کے اعتراف میں اظہار تشکر کے لیے ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا، جس کی انہیں توقع نہیں تھی اور جس نے ان کا سر فخر سے اونچا کر دیا۔
اس واقعے میں کاراتسُو کے ایک شہری نے اپنے گھر کے باہر بھرے ہوئے کوڑے دان کے پاس ایک سربمہر لفافے میں چند ایسے حفاظتی ماسک رکھ دیے، جو ہاتھ سے بنائے گئے تھے۔
جاپانی اخبار 'یومی یُوری شِمبُون‘ کے مطابق کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والے یہ ماسک تعداد میں چھ تھے۔ ان میں سے تین بالغ انسانوں کے استعمال کے لیے بنائے گئے تھے اور باقی تین چھوٹے سائز کے تھے، جو بچے استعمال کر سکتے تھے۔
اس لفافے میں صرف ماسک ہی نہیں تھے بلکہ ساتھ ایک تحریری پیغام بھی تھا، جس میں کوڑے دان خالی کرنے والے مقامی بلدیاتی کارکنوں کا دلی شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ اس طرح شکریہ ادا کرنے والا شہری کوئی مرد تھا یا کوئی خاتون۔
جس بلدیاتی ملازم کو یہ لفافہ کوڑے دان کے پاس رکھا ملا، وہ اسے اپنے ساتھ دفتر لے آیا، تو 'احترام اور پیار سے بھرا ایسا تحفہ‘ بھیجنے والے مقامی شہری کے اس اقدام پر ہر کسی کو بہت حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ اس واقعے کے بعد مقامی بلدیہ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ بحران اور پریشانی کے ان دنوں میں بھی عام شہری یہ نہیں بھولے کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی میں کس کس کی محنت اور خدمت پر دل سے شکر گزار ہیں۔
م م / ع ا (ڈی پی اے)
کوڑے کے کنٹینرز سے شہر کی ’خوبصورتی میں اضافہ‘
خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور شہر میں کوڑاکرکٹ جمع کرنے کے لیے 151 خوبصورت آرٹ، کارٹون اور نقش ونگاری سے ڈھکے ہوئے کنٹینرز تیار کئے ہیں۔ ان کا مقصد کچرا اکٹھا کرنے کے علاوہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
کچرے کے لیے مخصوص جگہیں
واٹر اینڈ سینیٹیشن سروس پشاور(WSSP) نے یہ کنٹینرز شہر کے مختلف ایسے مخصوص مقامات پر رکھے ہیں، جہاں عام شہری آسانی کے ساتھ ان میں گھروں کا کچرا ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
پہلے مرحلے کے بعد دوسرے کی تیاری
ابتدائی طور پر اس مہم کے پہلے مرحلے پر آٹھ کروڑ تک لاگت آئی ہے، جب کہWSSP کے ڈاریکٹر کے مطابق اس مکمل پروجیکٹ کے لیے کل بیس کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس کا دوسرا مرحلہ جلد ہی شروع کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
پشاور دنیا کا چھٹا آلودہ ترین شہر
رواں سال عالمی ادارہء صحت کے ایک رپورٹ کے مطابق پشاور دنیا کا چھٹا آلودہ ترین شہر ہے۔ فضائی آلودگی کے علاوہ پشاور میں جگہ جگہ کوڑے اور کچرے کے ڈھیر بھی اس شہر کی خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Baber
پرانے کنٹینر بدبو کا ڈھیر
مخلتف مقامات، سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں کوڑے کو اکٹھا کرنے کے لیے WSSP اور ضلعی انتظامیہ نے مل کر کچرا اکھٹا کرنے والے اہلکاروں کی بھرتی کے علاوہ شہر میں کوڑے کے لئےمختلف پوائنٹس بھی مختص کیے ہیں۔ تاہم اس میں استعمال ہونے والے پرانے کنٹینرز ڈھکن نہ ہونے کی وجہ سے بدبو کا سبب بن رہے تھے۔
تصویر: DW/D. Baber
ثقافتی رنگ بھی
WSSP کے جنرل منیجر ناصرغفور خان کے مطابق یہ پاکستان میں اپنی طرز کی پہلی مہم ہے، جس میں اس قسم کے رنگین آرٹ سے سجائے گئے کنٹینرز کا استعمال کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کنٹینرز کو کسی ایک علاقے میں مستقل طور پر نہیں رکھا جائے گا۔ ’’مختص علاقے میں ہر روز نئے رنگ اور آرٹ کا کنٹینر رکھا جائے گا، اور یہ چکر چلتا رہے گا، تاکہ لوگ اس طرف راغب رہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Baber
نوجوان رضاکار فنکار
کچرے کے ان کنٹینرز کو ایک خاص ڈیزائن کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ان پر رنگ سازی اور نقش نگاری کے لیے پشاور کے کچھ نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات فراہم کی۔ جن کو حکومت کی طرف سے صرف پینٹ اور دوسرے آلات مہیا کیے گئے۔
تصویر: DW/D. Baber
جدید گاڑیوں کا استعمال
شہر میں پہلی مرتبہ جدید طرز پر بنائے گئے، گندگی کو چھپانے والے یہ کنٹینرز اب پشاور کے 151مقامات پر رکھے گئے ہیں۔ ان کنٹینرز کی بروقت نقل وحمل کے لیے معیاری اور جدید گاڑیوں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
دیدہ زیب کنٹینرز
دیدہ زیب اور خوبصورت رنگوں سے رنگے، کچرے کے لیے استعمال ہونے والے یہ کنٹینرز شہریوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہیں۔ پچپن سالہ خادم حسین سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ ان کے بقول، ’’ان پیارے کوڑا دانوں کو دیکھ کر ہر کوئی ان کو استعمال کرے گا۔‘‘
تصویر: DW/D. Baber
بدبو اب نہیں
گندگی یا کوڑا جمع کرنے والے یہ نئے ڈبے یا کنٹینرز مکمل طور پر بند ہیں،جس کی وجہ سے کچرے سے پیدا ہونے والی بدبو پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Baber
مسلسل دیکھ بھال
شہر میں رکھے گئے ان کنٹینرز کو جہاں WSSP کا عملہ روازنہ خالی کراتا ہے، وہیں ان کی نگرانی بھی کی جاتی ہے، تاکہ کسی قسم کے نقص یا مسئلے کو بروقت ختم کیا جاسکے۔
تصویر: DW/D. Baber
مزید کنٹینرز درکار
گوکہ یہ صوبائی حکومت کی جانب سے ایک اچھا اقدام ہے اور اس مہم کے پہلے مرحلے میں شہر کے کچھ ہی مقامات پر یہ کنٹینرز رکھے گئے ہیں، تاہم بعض علاقوں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے کوڑا جمع کرنے کے لیے ایک کنٹینر ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔