1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاشی کمیٹیوں میں فوجی افسران کی شمولیت پر تنقید

21 جون 2023

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، جس میں فوجی افسران کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس حکومتی اقدام کی تعریف بھی ہورہی ہے جب کہ کچھ ماہرین اس پر تنقید بھی کررہے ہیں۔

Prime Minister Shahbaz Sharif
تصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

تعریف کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس سے نوکر شاہی کی طرف سے معاشی فیصلوں میں بلاجواز تاخیرکی حوصلہ شکنی ہوگی جب کہ ناقدین اس فیصلے کو سیاسی قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ کل وزیر اعظم شہباز شریف نے معیشت کی بحالی کے لیے ایک اپیکس کمیٹی بنائی ہے، جسے اسپشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کمیٹی کا نام دیا ہے۔ حالانکہ حکومت نے اس حوالے سے وضاحت نہیں کی کہ اس کمیٹی میں فوج کا کیا کردار ہوگا لیکن انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کو ایک وفاقی وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ معیشت کا یہ منصوبہ سی پیک سے بھی بڑا ہے۔ اخبار کو حکومتی ذرائع نے بتایا کہ اس منصوبے میں فوج کا کرداد مینیجمنٹ اور کوآرڈینیشن کا ہوگا۔

فوجی افسران کی شمولیت سیاسی ہے

 سوشل میڈیا پر حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کا بھی بہت چرچا ہو رہا ہے جس میں مختلف کمیٹیوں میں فوجی افسران کے عہدے بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی افسران کی تربیت ایسی نہیں کہ وہ معیشت جیسے پیچیدہ معاملات کو سمجھ سکیں اور ایسے معاملات میں ان کی دخل اندازی بالکل نامناسب ہے۔ پاکستانی فوج اور عسکری معیشت پر گہری نظر رکھنے والی معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے حکومت کا یہ اقدام اپنی نوعیت میں سیاسی لگتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے حکومت یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ان کے ساتھ ہیں۔ فوجی  افسران کو اس طرح ایسی کمیٹیوں میں شامل کرنا، جن کا کام معاشی امور کے حوالے سے ہے، کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ فوجی افسران کو معیشت کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی افسران کی تربیت ایسی نہیں کہ وہ معیشت جیسے پیچیدہ معاملات کو سمجھ سکیںتصویر: DW/R. Saeed

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ فوجی افسران کی قابلیت اس حوالے سے کیا ہے؟

سخت معاشی فیصلے اور فوج

 خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی مشکل معاشی فیصلہ ہوتا ہے، تو کئی حلقوں کی طرف سے اس کی بھرپور مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب کبھی بھی کوئی حکومت نجکاری کا کوئی منصوبہ لے کر آتی ہے، تو ٹریڈ یونینز کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب بھی حکومت نے تاجروں کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی، تو اس کی بھی تاجر برادری نے بھرپور مخالفت کی۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کے حکومت سخت معاشی فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے طاقت کی ضرورت پڑے۔ ''اور پھر وہاں فوج سے مدد لی جائے۔‘‘

ایکسپورٹ اور مارکیٹنگ اسٹریٹیجی

 اس معاشی بحالی کے پروگرام میں پیداواراور خصوصاً دفاعی پیداوار اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کے منصوبوں کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے۔ تاہم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ چین اور دوسرے ممالک پہلے ہی افریقہ اور دوسرے علاقوں میں ہتھیار بیچ رہے ہیں۔ '' پاکستان پہلے ہی چھوٹے اور لائٹ ہتھیار بیچ رہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزید اگر ہتھیار بنا بھی دیے جائیں، تو ان کو مسابقتی مارکیٹ میں کیسے بیچا جائے گا۔  اس کے لیے آپ کو مارکیٹنگ اسٹریٹیجی چاہیے،  جو یقیناً فوجیوں کے پاس نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں افسر شاہی کی کاروباری، صنعتی اور تجارتی معاملات میں بہت بے جا دخل اندازی ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

معیشت میں مداخلت نا مناسب

 کچھ معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح فوجیوں کو معاشی امور سے متعلق کمیٹیوں میں شامل کرنا سویلین معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے اور یہ کہفوج  کا یہ آئینی کردار نہیں کہ وہ اس طرح کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ یہ آئینی طور پر عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ ایسے معاملات میں آئین سے انحراف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اداروں کو مزید کمزور کر دیں گے۔ جس طرح جنگ ایک سنجیدہ معاملہ ہے بالکل اسی طرح معیشت ایک بہت گھمبیر اور سنگین معاملہ ہے، جس کو جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس طرح کی معاشی امور کی کمیٹیوں کی نگرانی ایسے لوگوں سے کرانا مناسب نہیں ہے۔‘‘

معاشی ترقی کے لیے اقدامات

 اکرام الحق کے مطابق اگر ہمیں معیشت کو بحال کرنا ہے تو اس کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز کرنا ہوں گی۔ '' ہمیں معاشی ترقی کے لیے ایسے فارمولے کو اپنانا ہوگا جس سے تمام شہریوں کو فائدہ ہو۔ ٹیکس یکساں ہونا چاہیے اور ٹیکس کے معاملے میں کسی کو بھی مقدس گائے کا درجہ نہیں دیا جانا چاہیے۔‘‘

فوجی افسران کی شمولیت مثبت

تاہم بزنس کمیونٹی معاشی امور کے ماہرین کے اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتی ہے کہ فوج کو معاشی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں اس طرح کی کمیٹی کی تشکیل اور اس میں فوجی افسران کی شمولیت پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہوسکتی ہے۔

’معیشت ایک بہت گھمبیر اور سنگین معاملہ ہے، جس کو جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا‘تصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

 پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر اور معروف  صنعتکار احمد چنائے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی کی کاروباری، صنعتی اور تجارتی معاملات میں بہت بے جا دخل اندازی ہے، جو سرمایہ کاری کا راستہ روکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد اس بے جا دخل اندازی کو روکنا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا  کرنا ہے۔ اگر سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول ہوگا تو یقیناً اس سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔‘‘

 احمد چنائے کے مطابق حکومت کا منصوبہ یہ ہے کہ پٹرولیم، ایگریکلچر، آئی ٹی اور دوسری بنیادی صنعتوں کو فروغ دیا جائے آئے۔ ''یہ تاثر ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے لیکن ان کمیٹیوں میںفوجی  افسران کی شمولیت سے یہ پیغام جائے گا کہ سب ایک پیچ پر ہیں۔ حکومت مستحکم ہے اور جو سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کی سرمایہ کاری محفوظ رہے گی۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں