1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرینی گندم کی برآمد بحال، مزید دو بحری جہازوں کی روانگی

12 اگست 2022

ترک وزارت دفاع کے مطابق جمعے کو بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے یوکرینی گندم کی اولین کھیپ برآمد کی جا رہی ہے۔ ایسا اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ممکن ہو سکا۔

Getreidefrachter  "Polarnet" Derince Hafen Türkei
تصویر: Ali Atmaca/AA/picture alliance

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یوکرین سے اب تک 14 بحری جہاز روانہ ہو چکے ہیں۔ روس کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے تحت یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے اناج کی برآمدات کی بحالی ممکن ہوئی۔ روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرینی زرعی اجناس کی برآمدات کا سلسلہ پانچ ماہ تک تعطل کا شکار رہا۔

ترکی کے ساتھ اقوام متحدہ کی ثالثی میں یہ معاہدہ گزشتہ ماہ طے پایا تھا۔ یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب اناج کی سپلائی بند ہو جانے سے خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی، یہاں تک کہ دنیا کے کچھ خطوں میں تو بھوک اور قحط  کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔

یوکرینی بندرگاہ سے روانہ ہونے والا بحری جہاز

ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ جمعے کو یوکرین کی کورنومورسک نامی بندرگاہ سے بیلیز کے پرچم والا بحری جہاز سورمووسکی ترکی کے شمال مغربی صوبے تکیرداگ کی طرف روانہ ہوا۔ اس پر تین ہزار پچاس ٹن گندم لدی ہوئی ہے۔ 24 فروری سے پہلے یوکرین اور روس مل کر دنیا بھر کو گندم کی برآمدات کا قریب ایک تہائی حصہ فراہم کرتے تھے۔ فروری کے اواخر میں روس نے اپنے ہمسایہ ملک یوکرین کے خلاف خود ماسکو کے بقول ایک 'خصوصی آپریشن‘ شروع کیا تھا، جس کا مقصد یوکرین کو 'غیر فوجی‘ بنانا تھا۔

یوکرین کے پاس گزشتۃ سال کی فصل سے اب تک تقریباً 20 ملین ٹن اناج بچا ہوا ہے جبکہ اس سال بھی گندم کی کٹائی سے اتنی ہی گندم یعنی قریب 20 ملین ٹن پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔خوراک کی فراہمی سب کے لیے، موجودہ صدی کا اہم ترین چیلنج

 

یوکرین کی کورنومورسک نامی بندرگاہ سے روانہ ہونے والا اناج بردار جہازتصویر: Serhii Smolientsev/REUTERS

ترک حکومت کے مطابق مارشل آئی لینڈ کے جھنڈے والا اسٹار جہاز لورا بھی پیودینی کی بندرگاہ سے روانہ ہو چکا ہے، جس پر ایران کے لیے 60 ہزار ٹن گندم لدی ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت اب تک زیادہ تر مال بردار بحری جہاز جانوروں کی خوراک یا ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی گندم لے کر روانہ ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ متاثرہ ممالک

بتایا گیا ہے کہ روسی یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد سے عالمی سطح پر اناج کی کمی کے خطرات پیدا ہو گئے تھے اور چند ممالک اس قلت کا سب سے زیادہ شکار ہوئے۔ گزشتہ روز یوکرین نے کہا تھا کہ وہ جہاز اس کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے والا ہے، جو اناج لے کر ایتھوپیا کے لیے روانہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ذریعے طے شدہ معاہدے کے تحت تمام بحری جہازوں کا پہلے استنبول میں معائنہ کیا جاتا ہے۔ استنبول میں اقوام متحدہ، ترکی، روس اور یوکرین کے اہلکاروں پر مشتمل ایک رابطہ مرکز قائم ہے، جو تمام کارگو بحری جہازوں کا حتمی روانگی سے پہلے معائنہ کرتا ہے۔

غذائی قلت سے عالمی قحط پھیلنے کا خدشہ، ورلڈ بینک کا انتباہ

رازونی نامی بحری جہاز معاہدے کے تحت یوکرین سے روانہ ہونے والا پہلا جہاز تھا، جو جمعرات کے روز ترکی میں لنگر انداز ہوا۔ وہاں سے وہ آج جمعے کو مصر کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ اطلاعات شپ ٹریکنگ ڈیٹا سے حاصل ہوئیں۔ دریں اثنا لبنان میں اس اناج کے ابتدائی خریدار نے اس کی ترسیل سے انکار کر دیا۔

خارکیف کی فیلڈز میں اگنے والی گندم کی کٹائی تصویر: Vyacheslav Madiyevskyy/Ukrinform/abaca/picture alliance

دیگر جہازوں کی تفصیلات

استنبول کی معروف شپنگ کمپنی ٹوروس جس نے رازونی شپ سے ترکی میں اناج کی آف لوڈنگ کا بندوبست کیا، نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ اس جہاز پر لدی 26 ہزار پانچ سو ستائیس ٹن مکئی میں سے ڈیڑھ ہزار ٹن جنوبی ترکی کی بندرگاہ مارسین پر اتار لی جائے گی اور بقیہ مصر پہنچا دی جائے گی۔

راحمی ژاگچی کنٹینر شپ جو یوکرین سے استنبول کے لیے منگل کے روز روانہ ہوا تھا، وہ جمعے کو آبنائے باسفورس کے شمالی سرے پر لنگر انداز ہو گیا جبکہ مصطفیٰ نیجاتی کارگو شپ جو گزشتہ اتوار کو اٹلی کے لیے روانہ ہوا تھا، وہ جنوبی سرے پر لنگر انداز ہوا ہے۔

ان کے علاوہ استنبول کی جی سی سی ٹیم کی طرف سے معائنے کے بعد چار دیگر بحری جہازوں کو بھی یوکرین کے سفر کی اجازت مل گئی۔ ترک وزارت دفاع نے جمعرات کے روز بتایا کہ جو شپ یوکرین پہنچے تھے، وہ تب لوڈ کیے جا رہے تھے۔ تاہم یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ یہ شپ وہاں سے کب روانہ ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یوکرینی اجناس کی برآمد پر اتفاق کے بعد اناج کی برآمدات کے لیے زیر استعمال بحری جہازوں کی تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔

ک م / م م (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں