’معجزہ‘: سترہ روز بعد ملبے سے زندہ خاتون برآمد
11 مئی 2013’’ میں چیختی رہی لیکن کسی نے میری صدا سنی نہیں۔ مجھے دوسرے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن میری آواز کسی کے کانوں تک نہیں پہنچی‘‘۔ لیکن سترہ روز بعد آخر کار ریشما کی نحیف سی آواز امدادی کارکنوں تک جا پہنچی۔ ریشما کو ملبے سے نکالنے کے مناظر ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیے گئے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق ریشما کو معمولی زخم آئے تھے اور وہ بات چیت بھی کر پا رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں اس حادثے میں دیگر افراد کے بچنے کی بھی امید پیدا ہو گئی ہے۔
امدادی کارکنوں کے مطابق اٹھارہ سالہ ریشما نے سترہ روز تک خشک غذا اور پانی کی ایک بوتل پر گزارا کیا۔ ڈھاکہ کے ایک نواحی علاقے میں 24 اپریل کو آٹھ منزلہ عمارت کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسے دنیا کا خونریز ترین فیکٹری حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امدادی کارکن 28 اپریل کو آخری مرتبہ ملبے سے کسی کو زندہ نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ریشما کے بقول سب سے نچلی منزل پر ایک تنگ سے حصے میں مزید تین افراد اور بھی تھے تاہم اس دوران وہ بھی دم توڑ گئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ان کے بھائی زاہد الاسلام نے بتایا کہ سولہ سال کی عمر میں ریشما کی شادی گاؤں کے ایک آدمی سے کر دی گئی تھی تاہم ایک سال بعد ہی علیحدگی ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد ریشما روزگار کے غرض سے ڈھاکہ آ گئی اور گارمنٹ فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔
زاہد الاسلام کے بقول ریشما کی ماہانہ آمدنی پچاس سے ساٹھ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھی۔’’وہ روزانہ ہی اوور ٹائم کیا کرتی تھی تاکہ گھر والوں کی بہتر انداز میں مدد کی جائے۔ حادثے کی خبر سننے کے بعد ہم نے تمام ہسپتالوں کا رخ کیا اوراپنی بہن کو مردہ خانوں میں بھی تلاش کیا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پھر ریشما کے زندہ بچ جانے کی خبر آئی۔ ’’ہم اسے ایک معجزے سے کم نہیں سمجھتے اور جیسے ہی اسے ملبے سے باہر نکالا گیا تو میں نے اس کا چہرہ دیکھ کر کہا کہ یہ میری بہن ہے‘‘۔ اخبار ڈھاکہ ٹربیون نے لکھا ہے کہ ’’ گزشتہ کئی دونوں سے بری خبروں کے بعد یہ اچھی خبر سنائی دی۔ ریشما نے پوری قوم کے دلوں میں آس اور امید کے پہلو کو بیدار کر دیا ہے‘‘۔
جمعے کے روز اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرنے کی خبر کے کچھ گھنٹوں بعد ہی انتظامیہ نے امدادی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے کچھ دیر بعد ہی ریشما کی کمزور سی پکار سنائی دی اور صورتحال یکدم تبدیل ہو گئی۔ ’’میرا نام ریشما ہے مجھے بچائیں، میرے بھائی مجھے باہر نکالیں‘‘۔
ai / sks (AFP,dpa)