معدوم جانوروں کی نو دریافت نسلیں بدستور خاتمے کے خطرے میں
22 اگست 2011سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی (NUS)کی طرف سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ان 351 نسلوں کی دوبارہ دریافت کے باوجود یہ نسلیں ابھی تک دنیا سے ختم ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کی وجہ ان جانوروں کی بہت کم تعداد میں موجودگی ہے۔
NUS کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق: ’’نو دریافت شدہ نسلوں کے زیادہ تر جانوروں کی تعداد بہت ہی محدود ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان نسلوں کو کب دوبارہ دریافت کیا گیا، ان میں سے 92 فیصد ایمفیبیئنز یعنی ایسے جانور جو خشکی اور تری دونوں میں رہ سکتے ہیں، 86 فیصد پرندے اور 86 فیصد بچوں کو دودھ پلانے والے جانور یعنی ممالیہ پھر سے معدومیت کے خطرے سے دو چار ہیں۔‘‘
سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے یہ تحقیق یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ اور پرنسٹن یونیورسٹی کے تعاون کے ساتھ کی ہے۔ محققین کے مطابق ایسے ایمفیبیئنز، پرندے اور ممالیہ جانور جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ دنیا سے ختم ہوچکے ہیں، ان کی نسلوں کی دریافت نو زیادہ تر خط استواء کے نزدیکی علاقوں میں ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ ان جانوروں کی تعداد میں کمی کے باعث ٹروپیکل علاقوں میں زیادہ تر نو دریافت شدہ نسلیں ابھی تک معدوم ہونے کے شدید خطرات سے دو چار ہیں۔‘‘
اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے بائیالوجیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے بریٹ شیفلرز Brett Schefflers کے بقول: ’’ ان نسلوں کو محفوظ بنانے سے متعلق ٹھوس اقدامات کے بغیر محض دریافت نو کے سبب یہ تو ممکن ہے کہ ان نسلوں کی ناپیدگی کا وقت تھوڑا بڑھ جائے، تاہم ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ ان کی آبادی اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ ختم ہونے کے خطرات سے باہر نکل سکیں۔‘‘ شیفلرز کا مزید کہنا ہے: ’’ امید تو موجود ہے مگر ہمیں ان نسلوں کو محفوظ بنانے سے متعلق تیزی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
تحقیق کے مطابق جن 351 نسلوں کو دوبارہ دریافت کیا گیا ان میں سے ہر ایک دریافت نو سے قبل اوسطاﹰ 61 برس تک لاپتہ رہی، اس وجہ سے ان نسلوں کو محفوظ بنانے سے متعلق منصوبہ بندی نہایت مشکل ہو جاتی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: حماد کیانی