معروف اسرائیلی ادیب کا حکومتی ’انتہا پسندی‘ کے خلاف احتجاج
6 نومبر 2015یروشلم سے جمعہ چھ نومبر کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں آموس اوز کے ایک اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے بین الاقوامی سطح پر اس سب سے مشہور مصنف نے کہا ہے کہ وہ آئندہ بیرون ملک منعقد ہونے والی کسی بھی سرکاری اسرائیلی تقریب میں حصہ نہیں لیں گے۔
آموس اوز نے اخبار Maariv میں آج شائع ہونے والے اس انٹرویو میں کہا، ’’جب بیرون ملک میری کتابوں کے ترجمے شائع ہوتے ہیں تو رونمائی کی تقریبات میں مجھے بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ لیکن اسرائیل میں مختلف شعبوں میں (وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی) موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے باعث میں نے اپنے میزبانوں کو اطلاع کر دی ہے کہ وہ مجھے ایسی تقریبات میں مدعو نہ کریں جو میرے اعزاز میں لیکن بیرونی ممالک میں اسرائیلی سفارت خانوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق آموس اوز کے اس اعلان پر اسرائیلی وزارت خارجہ نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس بارے میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، ’’اس بہت زیادہ عزت کی وجہ سے جو ہم آموس اوز کی کرتے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بارے میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جائے گا۔‘‘
76 سالہ آموس اوز اسرائیل میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت کے بڑے ناقد ہیں اور وہ موجودہ حکومت کو دائیں بازو کی طرف سب سے زیادہ جھکاؤ رکھنے والی وہ واحد حکومت قرار دیتے ہیں جو اسرائیل کی ریاستی تاریخ میں آج تک اقتدار میں آئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اوز کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس فلسطینی مہم کے بھی خلاف ہیں، جس کا مقصد اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ آموس اوز نے کہا کہ انہوں نے بیرون ملک اسرائیل کی سرکاری تقریبات میں حصہ نہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا ہدف ’موجودہ اسرائیلی حکومت ہے نہ کہ میرا ملک‘۔
آموس اوز ایک ایسے مشہور اور ایوارڈ یافتہ ادیب ہیں، جنہیں کئی ماہرین اپنے طور پر متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کی حقدار شخصیت بھی قرار دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اوز اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین قیام امن کے معروف ترین حامیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس آموس اوز نے اپنے ایک بیان کے ساتھ اسرائیل میں ایک بھرپور لیکن متنازعہ بحث کا آغاز کر دیا تھا۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف نفرت کی وجہ سے رونما ہونے والے جرائم کے مرتکب اسرائیلیوں کو ’عبرانی نئے نازی‘ قرار دیا تھا۔