بھارت کی معروف صحافی گوری لنکیش کو بنگلور شہر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ انہیں جنوبی ریاست کرناٹک میں ان کی رہائش گاہ کے باہر ہلاک کیا گیا۔
اشتہار
ایک اخباری جریدے کی مدیر اور انتہائی دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کی سخت ناقد سمجھی جانے والی گوری لنکیش کو اس حملے میں کئی گولیاں لگیں۔
بنگلور شہر کی پولیس کے مطابق لنکیش گاڑی کھڑی کر کے گھر کی جانب بڑھ رہی تھیں، جب موٹرسائیکلوں پر سوار تین حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ لنکیش موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں۔ ایک گولی ان کے سینے میں اور ایک سر پر لگی۔
’صحافت کی آزادی‘ کے شکار صحافی
صحافیوں کو ان کی ذمہ داریوں کے دوران گرفتارکیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کئی مرتبہ قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ یہ صحافی اکثر حکومتوں، جرائم پیشہ گروہوں یا مذہبی انتہاپسندوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
روس: نکولائی آندرشتشینکو
نکولائی آندرشتشینکو کو روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں سرعام ایک سڑک پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انیس اپریل 2017ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ آندرشتشینکو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین روسی خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Usov
میکسیکو: میروسلاوا بریچ
میروسلاوا بریچ کو تئیس مارچ 2017ء کو ان کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ میکسیکو کی یہ صحافی منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔ وہ مارچ میں میکسیکو میں قتل ہونے والی تیسری صحافی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/C. Tischler
عراق: شیفا گہ ردی
شیفا گہ ردی پچیس فرروی 2017ء کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ ایران میں پیدا ہونے والی شیفا اربیل میں قائم کرد خبر رساں ادارے ’روودوا‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔ انہیں عراق میں ملکی دستوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مابین جاری جنگ کے بارے میں رپورٹنگ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/F. Ferec
بنگلہ دیش: اویجیت رائے
امریکی شہریت کے حامل اویجیت رائے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتے تھے۔ وہ فروری 2015ء میں ایک کتاب میلے میں شرکت کے لیے ڈھاکہ آئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے تیز دھار چاپٹروں سے ان پر حملہ کرتے ہوئے انہیں قتل کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. U. Zaman
پاکستان: زینت شہزادی
24 سالہ پاکستانی صحافی زینت شہزادی کو انیس اگست 2015ء کو مسلح افراد نے اس وقت اغوا کر لیا تھا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہو کر اپنے دفتر جا رہی تھیں۔ وہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ زینت پاکستانی افواج کی طرف سے تعاقب کا شکار بنیں۔
تصویر: humanrights.asia
ازبکستان: سالیجون عبدالرحمانوف
عبدالرحمانوف 2008 ء سے منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق حکومتی اہلکاروں نے عبدالرحمانوف کو خاموش کرانے کے لیے ان پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا۔
ترکی : ڈینیز یوچیل
ترک نژاد جرمن صحافی ڈینز یوچیل فروری 2017ء سے ترکی میں زیر حراست ہیں۔ جرمن جریدے دی ویلٹ کے اس صحافی پر دہشت گردی کا پرچار کرنے اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ انقرہ حکومت ابھی تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.Merey
چین: گاؤ یُو
گاؤ یُو ماضی میں ڈوئچے ویلے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ وہ 2014ء سے سرکاری راز افشا کرنے کے جرم میں قید میں ہیں۔ انہیں سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کے بعد گاؤ کو جیل سے رہا کر کے ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔
تصویر: DW
آذربائیجان: مہمان حسینوف
حسینوف ایک آن لائن سماجی اور سیاسی میگزین کے مدیر ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بدعنوانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملک کے اس سب سے معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017ء میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی
تصویر: twitter.com/mehman_huseynov
مقدونیا: ٹیموسلاف کیزاروفسکی
ٹیموسلاف کیزاروفسکی کو جنوب مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے۔ کیزاروفسکی ایک صحافی کے قتل کے واقعے میں اصل حقائق تک پہنچنے کی کوششوں میں تھے اور اس دوران انہوں نے پولیس کی خفیہ دستاویزات کا بھی حوالہ دیا تھا۔ اکتوبر 2013ء کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے اختتام پر انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی، جسے بعد میں دو سالہ نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا۔
ایک سینیئر پولیس اہلکار آر کے دتّا کا کہنا ہے کہ فی الحال اس حملے میں ملوث افراد کی بابت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ چند روز قبل ہی خود لنکیش سے ملے تھے، تاہم اس ملاقات میں لنکیش نے نہ کسی دھمکی کا ذکر کیا تھا اور نہ ہے زندگی کو لاحق خطرات کی بابت کچھ کہا تھا۔
55 سالہ صحافی ریاستی زبان کاناڈا میں شائع ہونے والے اخبار کی مدیر تھیں اور وہ ہندو انتہاپسندوں پر سخت نکتہ چینی کرتی آئی ہیں۔
سن 2016ء میں انہیں ایک عدالت نے حکمران بھارتیا جنتا پارٹی کے دو سیاست دانوں کی جانب سے ہتکِ عزت کے دعوے پر مجرم بھی قرار دیا گیا تھا، تاہم انہیں جیل نہیں بھیجا گیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی جنوبی روشن خیال سمجھی جانے والی ریاستوں میں بھی نمایاں سیاسی کارکناں اور دانش وروں پر حملے اس سے قبل بھی دیکھے جاتے رہے ہیں۔
سن 2015ء میں بنگلور شہر ہی سے تعلق رکھنے والے دانش ور میلشیپا ایم کالبُرگی کو اسی انداز سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انہیں انتہائی دائیں بازو کے ہندو شدت پسندوں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی تھیں، کیوں کہ وہ بتوں کی پوجا اور ہندو مت کے متعدد دیگر اعتقادات پر شدید تنقید کرتے تھے۔
دو برس قبل صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے بھارت کو صحافیوں کو لاحق خطرات کے اعبتار سے ایشیا کے خطرناک طرین ممالک میں شمار کیا تھا۔