1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معروف مسلم وکیل کا قتل، سوچی نے خاموشی توڑ دی

26 فروری 2017

میانمار کی رہنما سوچی نے مسلمان وکیل کونی کی دن دیہاڑے ہونے والی ہلاکت پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اس قتل کو ملک میں جمہوریت کے فروغ کی کوششوں کے لیے ایک ’بڑا نقصان‘ قرار دے دیا ہے۔ کونی کو انتیس جنوری کو ہلاک کیا گیا تھا۔

Myanmar - Staatssekretärin und Aussenministerin Aung San Suu Kyi hält rede
تصویر: picture-alliance /dpa/L. Bo Bo

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے میانمار کی حکمران پارٹی کی رہنما آنگ سان سوچی کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسلمان وکیل کونی کی ہلاکت ملک میں جمہوریت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ چھبیس فروری بروز اتوار ینگون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ کونی کی ہلاکت ان کی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ کونی نہ صرف حکمران جماعت نیشنل فرنٹ کے اعلیٰ رکن تھے بلکہ وہ سوچی کے ایک اہم مشیر بھی تصور کیے جاتے تھے۔

میانمار میں مسلمان وکیل کو کس نے قتل کیا؟
میانمار: شمالی راکھین میں فوجی آپریشن روک دیا

میانمار کا بحران اور روہنگیا کم سِن دلہنیں

انتیس جنوری کو، ینگون ایئر پورٹ کے باہر کونی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہاں موجود ایک ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں بچانے کی کوشش کی تھی لیکن حملہ آور نے اسے بھی ہلاک کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق ایک سابق فوجی نے اس حملہ آور کی خدمات حاصل کی تھیں، جو اب مفرور ہے۔

اتوار کے دن ینگون میں کونی کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں سوچی بھی شریک ہوئیں۔ اس موقع پر سوچی نے کونی کی ہلاکت پر اپنے پہلے عوامی بیان میں مزید کہا کہ یہ ایک ’سیاسی قتل‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دراصل یہ نیشنل لیگ کی پالیسیوں کے خلاف ’ایک دہشت گردانہ حملہ‘ ہے۔

آئینی ماہر کونی ملکی فوج کی پالیسیوں کے سخت ناقد تھے۔ وہ میانمار میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں حالیہ عرصے کے دوران کٹر نظریات کے حامل بدھ عوام کی طرف سے روہنگیا مسلمان کمیونٹی پر مبینہ ظلم و ستم کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز بھی اس اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

اتوار کے دن ینگون میں کونی کی میموریل سروس کے دوران سوچی نے اگرچہ کوئی سیاسی بیان نہیں دیا تاہم انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑیں۔ انہوں نے کہا کہ عشروں تک جاری رہنے والی آمریت کے بعد حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی صرف دس ماہ ہی ہوئے ہیں جبکہ حالات میں بہتری کی کوشش جاری ہے اور جلد ہی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں