1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستانی عوام کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے؟

28 ستمبر 2023

عام شہریوں کے لیے معلومات تک رسائی کا قانون 2002ء میں نافذ ہوا تھا۔ 28 ستمبر کو منائے جانے والے رائٹ ٹو انفارمیشن کے عالمی دن کے موقع پر بہت سے پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ انہیں اہم سرکاری معلومات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔

Symbolbild Hacker Computer Tastatur Hand Hände
تصویر: Fotolia/pressmaster

دو عشروں سے بھی زیادہ عرصہ قبل 2002ء میں پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے نافذ العمل ہونے کے دو سال بعد 2004ء میں حکومت نے اس قانون پر عمل درآمد کو مؤثر بنانے کے لیے قواعد بھی بنائے تھے۔ لیکن کئی ماہرین، تجزیہ کار اور بہت سے عام شہری آج بھی یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس قانون کا احترام کرتے ہوئے عام شہریوں کو کوئی مطالبہ کیے بغیر اہم معلومات کی از خود فراہمی ایک مشکل عمل ثابت ہو رہی ہے۔

پاکستان میں صوبائی سطح پر کئی برسوں سے انفارمیشن کمشنر بھی تعینات ہیں، جن کا کام یہ ہے کہ اگر عام شہری حکومت سے کوئی معلومات طلب کریں مگر سرکاری محکمے یا ادارے وہ معلومات مہیا نہ کریں، تو یہ انفارمیشن کمشنر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مداخلت کریں اور شہریوں کو ان کی مطلوبہ معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن قانون سے متعلق کئی سطحوں پر شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ پھر کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف سرکاری ادارے درخواست دہندگان کے مطالبات کو 'حساس نوعیت کی معلومات‘ قرار دے کر ان کی فراہمی سے انکار بھی کر دیتے ہیں۔

ہم تو عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کا عمل بے حد آسان بنا دیا ہے، شعیب صدیقیتصویر: FAROOQ NAEEM/AFPGetty Images

پاکستان میں اس قانون پر عمل درآمد کی صورت حال کیا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے چیف انفارمیشن کمشنر شعیب احمد صدیقی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''یہ بے بنیاد اور افواہوں پر مبنی الزامات ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے تو عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کا عمل بے حد آسان بنا دیا ہے۔‘‘

 شعیب احمد صدیقی نے بتایا، ''شہریوں کی جانب سے رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران سب سے زیادہ معلومات کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، وزارت خزانہ اور نادرا کے بارے میں مانگی گئیں۔ ہمارا بجٹ 39.7 ملین روپے ہے، جو بہت ناکافی ہے۔ عملہ بھی صرف 12 افراد پر مشتمل ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایک سے دو تاریخوں میں ہی درخواست دہندگان کو مطلوبہ معلومات دلوا دی جائیں۔ ابھی حال ہی میں تو ایک اپیل پر کارروائی کرتے ہوئے ہم نے سی ڈی اے سے 50 سالہ ریکارڈ ایک ماہ میں ہی لے کر دیا ہے۔ تو یہ کمیشن مسلسل پہلے سے بہتر کام کر رہا ہے۔‘‘

پاکستان کے چیف انفارمیشن کمشنر نے مزید بتایا، ''جس بات پر زیادہ اعتراض کیا جا رہا ہے، وہ اس کمیشن میں 2019ء میں حکومت نے ایک ضابطہ بنایا تھا کہ ہر درخواست گزار یہ لازمی بتائے کہ اس نے اپنی مطلوبہ معلومات کہیں اور سے بھی نہیں مانگیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب مختلف مقامات پر ایک ہی درخواست پر کام کیا جائے گا، تو یہ وقت، مالی وسائل اور توانائی کا ضیاع ہو گا۔ اس لیے ہر درخواست دہندہ اگر اپنی درخواست میں یہ بات بھی ساتھ ہی لکھ دے، تو ہمارے لیے آسانی ہو جاتی ہے اور بہت سا وقت بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اکثر عام شہری اپنی درخواستوں کے ساتھ یہ دو جملے بھی نہیں لکھتے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘ شعیب احمد صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حق پر کام تو ہو رہا ہے، تاہم جتنا ہونا چاہیے اتنا ابھی تک نہیں ہو پا رہا۔

صحافیوں کے لیے آر ٹی آئی کتنا مؤثر؟

 گزشتہ دس سال سے اس قانونی امکان کو بروئے کار لانے والے فری لانس صحافی ندیم عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں بہت طاقت ور بیوروکریسی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس لیے کئی سرکاری ادارے عموماﹰ بنیادی معلومات کو بھی حساس قرار دے کر ان کی ترسیل سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہماری ایک ساتھی نے جب یہ مطالبہ کیا کہ انہیں ان فلموں کی فہرست مہیا کی جائے جنہیں سینسر کیا گیا اور جن کی پاکستان میں ریلیز روک دی گئی، تو حیران کن طور پر سینسر بورڈ نے ان معلومات کو بھی حساس قرار دے کر ان کی فراہمی سے انکار کر دیا۔‘‘

ندیم عمر نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی نوکر شاہی کی بالعموم کوشش یہ ہوتی ہے کہ شروع میں ہی شہریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے، یہاں تک کہ عام صارفین اس قانون کا استعمال ہی ترک کر دیں۔ ان کے مطابق ایسی صورت میں صوبائی انفارمیشن کمشنرز کی طرف سے عملی مدد اور بھی فیصلہ کن ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں بہت طاقت ور بیوروکریسی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، ندیم عمرتصویر: Fotolia/freshidea

پاکستان میں آر ٹی آئی قانون کے استعمال سے متعلق صوبے خیبر پختونخوا کی چیف انفارمیشن کمشنر فرح حامد خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''خیبر پختونخوا میں ہمیں عام شہریوں کی جانب سے جو درخواستیں موصول ہوتی ہیں، وہ زیادہ تر وزارت تعلیم، صحت اور لوکل گورنمنٹ کے بارے میں ہوتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز میں تو درخواست دہندگان کو اکیس دنوں کے اندر اندر مطلوبہ معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو پھر شکایات ہمارے پاس آتی ہیں اور ہم جلد از جلد یہ معلومات دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘  

 خیبر پختوانخوا میں اس انفارمیشن کمیشن کا عملہ کتنے افراد پر مشتمل ہے اور بجٹ کتنا ہوتا ہے، اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرح حامد خان نے کہا، ''ہمارا عملہ قریب 40 افراد پر مشتمل ہے۔ بجٹ تقریباﹰ 60 ملین روپے، جو ناکافی ہوتا ہے۔ اس بجٹ میں دو سال سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ہم تو یہ بھی کرتے ہیں کہ اگر کسی درخواست میں کوئی کمی رہ جائے، تو درخواست دہندہ کو فون کر کے بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی درخواست میں باقی ضروری تفصیلات بھی شامل کر دے، تا کہ اس کی اپیل پر فوراﹰ کام شروع کیا جا سکے۔‘‘

 پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹراور ماہر قانون آفتاب عالم نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فیڈرل انفارمیشن کمیشن کے نئے بیچ کے آتے ہی ایک نیا ٹرینڈ دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سی درخواستوں یا اپیلوں کو تکنیکی بنیادوں پر مسترد کیا جا رہا ہے۔ اس کمیشن نے ایک پیچیدہ فارم تیار کیا ہے، جوعام فہم نہیں ہے۔ پھر اس کے ساتھ ضروری شرائط کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے، جسے مکمل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام شقیں پوری کر کے بھی جو درخواست دی جاتی ہے، اسے بھی کوئی عذر بنا کر وہ اپیل رد کر دی جاتی ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سی بات ہے لیکن یوں دراصل انصاف کا حصول مشکل بنایا جا رہا ہے۔‘‘

آفتاب عالم نے کہا، ''اس طریقہ کار کی ایک مثال پنجاب کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر مختار احمد علی کی ہے۔ انہوں نے ملکی سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے عدلیہ کے تمام افسران کی تفصیل مانگی، تو رجسٹرار نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ عدلیہ اس قانون کے دائرے میں نہیں آتی۔ اس فیصلے کو پھر اسی اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا گیا، تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں اس درخواست کی سماعت ہی نہ کی گئی۔ اب نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس درخواست پر کام شروع کیا ہے۔‘‘

بِگ ڈیٹا، ہمارے حق میں اور ہمارے خلاف کیسے استعمال ہو سکتا ہے

03:58

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں