’مغربی اردن کی یہودی آبادیوں کو اسرائیل کا حصہ بنا دوں گا‘
7 اپریل 2019
اسرائيلی وزيراعظم نے آئندہ ہفتے ہونے والے اليکشن سے قبل بيان ديا ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں مقبوضہ مغربی اردن میں قائم یہودی بستیوں کو اسرائیل کا باقاعدہ حصہ بنا دیں گے۔ ترکی نے اس ممکنہ اقدام کی مذمت کی ہے۔
اشتہار
اسرائيلی وزير اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر وہ وزارت عظمی کے عہدے کے ليے ایک مرتبہ پھر منتخب ہو گئے، تو وہ مغربی اردن کے مقبوضہ علاقوں میں قائم کردہ يہودی آباديوں کو باقاعدہ طور پر اسرائیل میں ضم کر لیں گے۔ نيتن ياہو نے يہ بيان ايک ايسے موقع پر ديا ہے، جب آئندہ ہفتے اسرائيل ميں انتخابات ہونے والے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميں ايک بھی آبادی نہيں ہٹاؤں گا اور اس بات کو يقينی بناؤں گا دريائے اردن کے مغرب کے طرف واقع علاقہ جات اسرائيل کا حصہ بنا دیے جائیں۔ نيتن ياہو نے يہ بات اسرائيل کے ’چينل 12 TV‘ کو ديے اپنے ايک انٹرويو ميں کہی، جو ہفتے کو نشر کيا گيا۔
يہ بيان اسرائيلی وزير اعظم کی جانب سے پاليسی ميں ايک ’ڈرامائی تبديلی‘ کا عکاس قرار دیا جا رہا ہے۔ نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی رپورٹوں کے مطابق نیتن یاہو کا یہ اقدام اليکشن سے قبل قوم پرست حلقوں کو متحد کرنے کی کوشش ہے۔ نيتن ياہو چار مرتبہ اسرائيلی وزير اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہيں اور اپنی چاروں مدتوں ميں ہی انہوں نے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں يہودی آبادکاری کی پاليسی برقرار رکھی ہے تاہم اب تک انہوں نے مغربی کنارے کے حوالے سے تفصيلی پاليسی واضح نہيں کی تھی۔ يہ وہی علاقہ ہے، جسے فلسطينی اپنی مستقبل کی رياست کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔
اسرائيلی اور فلسطينی تنازعے کا دو رياستی حل کافی عرصے سے بين الاقوامی برادری کی ترجيح رہا ہے تاہم دیگر کئی اختلافات اور امريکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے يروشلم کو اسرائيلی دارالحکومت تسليم کیے جانے کے بعد سے امن عمل تعطل کا شکار ہے۔ حاليہ پيش رفت ميں ٹرمپ نے گولان کے پہاڑی علاقون کو بھی اسرائيلی علاقہ قرار دے ديا تھا۔
بينجمن نيتن ياہو کی جانب سے ہفتے کو سامنے آنے والے اس تازہ بيان پر فی الحال واشنگٹن حکومت نے کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا ہے۔ تاہم ترکی نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کيا۔ ترک وزير خارجہ نے اتوار کو اپنے بيان ميں اسرائيلی وزير اعظم کے بيان کو ’غير ذمہ دارانہ‘ قرار ديتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارہ فلسطينی علاقہ ہے، جس پر اسرائيل نے سن 1967 ميں قبضہ کيا تھا اور يہ بين الاقوامی قوانين کے خلاف ہے۔
رائے عامہ کے تارہ ترين جائزوں کے مطابق اسرائيلی انتخابات ميں سخت مقابلے کے امکانات ہيں۔ نيتن ياہو کی لیکود پارٹی اور ان کے سیاسی اتحاد کو حريف سیاسی پارٹی بينی غانتس کی قیادت میں قائم کردہ بلیو اینڈ وائٹ سیاسی اتحاد پر سبقت حاصل ہے۔ جائزوں کے مطابق امکان ہے کہ پارلیمان کی 120 نشستوں ميں سے ساٹھ سے زائد پر نیتن یاہو کا سیاسی اتحاد ہی کامياب رہے گی۔
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔