1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارشوں اور سیلاب کا رُخ جنوبی جرمن صوبے کی طرف

18 جولائی 2021

متاثرہ صوبوں رائن لینڈ پلاٹینیٹ اورنارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں پانی کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اب خدشات جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں کئی تہہ خانے زیرآب آگئے اورکئی ندیاں اور چشمےاُبل پڑے ہیں۔

Hochwasser in Sinzig
تصویر: Ian P. Johnson/DW

 مغربی جرمنی میں سیلاب کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 150 ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں میں سے ایک رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں کم از کم 110 افراد اور اس کی پڑوسی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 43 افراد موت کے مُنہ میں چلے گئے۔ سیلاب کی لائی ہوئی تباہی سے نمٹنے اور ریسکیو کے کاموں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔  جرمن فوج کے 850 سے زیادہ فوجی امدادی سرگرمیوں میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

میرکل کا دورہ

آج بروز اتوار جرمن چانسلر انگیلا میرکل سیلاب سے تباہ حال علاقوں کا دورہ کریں گی۔ میرکل اپنے دورے کے دوران خود سیلاب کی تباہیوں اور نقصانات کا اندازہ لگائیں گی اور اس قدرتی آفت کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان سے ملاقاتیں کریں گی۔ جرمنی اور اس کے کئی پڑوسی ممالک اس سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ہیں اور مغربی یورپ میں شدید بارش کے بعد کم از کم 183 افراد ہلاک ہوگئے اور درجنوں ہنوز لاپتہ ہیں۔  میرکل خاص طور سے مغربی صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ  کی آر وائیلر ویلی کے ایک گاؤں شُلڈ کا دورہ کر رہی ہیں۔ یہ علاقہ  نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی سرحد پر واقع ہے۔

ملبے کی صفائی کا کام جاری ہےتصویر: Natalia Smolentceva/DW

ملبے کی صفائی

سیلابی ریلے گلی کوچوں میں ملبہ چھوڑ گئے ہیں اور اب اس ملبے کی صفائی اور علاقے کی تعمیر ایک بڑا مرحلہ ہے۔ اتوار کو تازہ ترین بیان میں پولیس نے کہا، ’’ہماری زندہ یادوں میں یہ سیلاب کا بدترین واقعہ تھا جس میں بُدھ سے لے کر اب تک کم از کم 156 افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔‘‘پولیس کے مطابق فقط صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں 110 ہلاکتیں ہوئیں ہیں اور 670 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اُدھر پڑوسی ملک بیلجیم میں بھی حالیہ سیلاب نے کم از کم 27 افراد کی جان لی ہے۔ دونوں ممالک میں متاثرہ علاقوں میں ریسکیو عملہ ملبے تلے دبے افراد کا کھوج لگانے اور ان کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

تاریخی بارشیں

گزشتہ چند روز کے اندر اندر متعدد مغربی یورپی ممالک کو سیلابی آفت سے دوچار کرنے والی بارشوں کو مغربی یورپ کی تاریخی بارشیں کہا جا رہا ہے۔ اس بار کی بارشوں نے لکسمبرگ، نیدر لینڈ یا ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ کو بھی پوری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اب جبکہ رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں پانی کم ہونا شروع ہو گیا  ہے، اب خدشات جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

جنوبی صوبہ بویریا ہائی الرٹتصویر: Kilian Pfeiffer/dpa/picture alliance

بالائی باویریا کے علاقے میں ہفتے کی شام دیر گئے موسلا دھار بارش کے سبب کئی تہ خانے زیر آب آگئے اور کئی ندیاں اُبل پڑیں۔ جنوب مشرقی باویریا کے ایک علاقے بیئرشٹس گارڈنر میں ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ اس بارے میں باویریا کے اس ضلع کی ایک ترجمان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا۔

آسٹریا میں ہائی الرٹ

اُدھر آسٹریا کے حکام نے زالسبرگ اور ٹیرول جیسے انتہائی مقبول سیاحتی علاقوں میں سیلاب کا انتباہی اعلان کرتے ہوئے ان علاقوں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔  آسٹریا کے چانسلر سباستیان کُرس نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''بدقسمتی سے تیز بارشوں اور طوفان نے آسٹریا کے متعدد مقامات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ‘‘

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سیلاب کو ایک المیہ قرار دیا  ہے۔ میرکل نے متاثرہ علاقوں کی میونسپلٹیز کو وفاقی حکومت کی طرف سے مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ میرکل امریکا کے دورے پر تھیں جہاں جمعرات کو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ''میرا دل ان تمام انسانوں کے لیے بہت دُکھی ہے جو اس سیلابی آفت میں اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے ہیں۔‘‘

زالسبرگ کے نزدیک ایک گاؤں کا منظرتصویر: picture-alliance/dpa

امدادی فنڈ

جرمن حکومت نے ایک خصوصی امدادی فنڈ قائم کیا ہے جس کا مقصد کئی ارب یورو تک پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ہے۔ دریں اثناء جرمنی کے وزیر خزانہ اولاف شُلز نے سیلاب سے متاثرین کے لیے 300 ملین یورو سے زائد ایمرجنسی امداد کا اعلان کیا ہے جو سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی حکومتوں کے ذریعے تقسیم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سیلاب سے تباہ ہونے والے گھروں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جائیں گے۔

 

ک م/ا ب ا )اے ایف پی، اے پی، روئٹرز(

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں