مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا اجلاس
3 دسمبر 2009گزشتہ ہفتوں کے دوران نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راس موسن مسلسل کسی نا کسی ملک کے دورے پر رہے۔ ان کی کوشش تھی کہ زیادہ سے ریادہ یورپی ممالک کی حکومتوں سے آئی سیف کے افغانستان مشن میں مزید فوجیوں کے اضافے کے سلسلے میں ان کی رضا مندی حاصل کر سکیں۔ برسلز میں آج سے شروع ہونے والے نیٹو کے اجلاس سے پہلے ہی راسموسن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ محض امریکہ کی جنگ نہیں ہے۔ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ دنیا کے تمام ملکوں اور عوام کے لئے اس وقت پایا جانے والا سنگین خطرہ ہے۔
راسموسن نے کہا کہ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ افغانستان متعین آئی سیف کے دستوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس ضمن میں نیٹو کے سیکرٍٹری جنرل راسموسن نے آئندہ سال زیادہ نہیں تو کم از کم 5 ہزار اضافی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ امریکہ کے علاوہ نیٹو کے دیگر ممالک کم از کم 5 ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیجیں گے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہو۔
یورپی سفارتی حلقوں کے مطابق جارجیا 770 جبکہ ترکی 800 کے قریب اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پولینڈ نے تو پہلے ہی 600 مزید فوجی بھیجنے کی پیش کش کر دی ہے۔ تاہم جرمنی ابھی تک اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ برلن سے سامنے آنے والے بیانات کے تحت جرمن حکومت آئندہ جنوری کے اواخر میں لندن میں منعقد ہونے والی افغانستان کانفرنس تک انتظار ظار کرے گی۔ اس اجلاس میں پہلے اتحادی ملکوں کے راہنماء افغانستان کے حالیہ متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد کابل حکومت کے قیام اور اس کی کار کردگی پر غوروخوض کریں گے جس کے بعد ہی برلن کی طرف سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے آئے گی۔ وفاقی جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ سب سے پہلے معاملہ اہداف کا ہے، حکمت عملی کا، اس کے بعد سوال پیدا ہوگا آلہٰ کار کا۔ پھر دیکھا جائے گا کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ ویسٹر ویلے کے مطابق فی الحال اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے کہ مزید کتنے فوجی افغانستان بھیجے جانے چاہئیں یا بھیجے جائیں گے۔
جرمن وزیر خارجہ نے تاہم امریکی صدر باراک اوباما کا سن دوہزار گیارہ میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے اعلان کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ ویسٹر ویلے کے مطابق افغانستان کے گوناگوں مسائل کا حل کسی صورت بھی محض فوجی طریقہ کار سے ممکن نہیں ہے۔ اس ملک کو ایک سیاسی حل کی ضرورت ہے جسے فوجی معاونت حاصل ہو سکتی ہے۔ یعنی جرمن وزیر خارجہ کا ماننا ہے کہ افغانستان کو تعمیر نوء کی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی مدد ہو سکے اور وہ خود اپنے ملک کے معاملات سنبھالنے کے اہل بن سکیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حسین