1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغربی دنیا کے ساتھ مفاہمت کی ایرانی کوششیں

کشور مصطفیٰ6 ستمبر 2013

نئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مغربی دنیا کے خدشات دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی دوران ایک یورپی عدالت نے سات ایرانی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کو غلط قرار دیا ہے۔

تصویر: Tasnim

جواد ظریف نے یہ تازہ بیان یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران اور چوٹی کی سفارتکار کیتھرین ایشٹن کے ساتھ ٹیلیفون پر ایک گفتگو کے بعد دیا ہے۔ ایشٹن نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے نئے رابطہ کار ظریف کے ساتھ جلد ملاقات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ملاقات سے یہ امید وابستہ کی جا رہی ہے کہ تہران اور برسلز کے جمود کے شکار سفارتی تعلقات بحال ہو سکیں گے۔ یورپی طاقتوں کا تہران پر الزام ہے کہ وہ خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار سازی میں لگا ہوا ہے جبکہ ایران کی حکومت اس کی بارہا تردید کرتی آئی ہے۔ ظریف نے کہا ہے کہ یہ ملاقات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عمل میں آئے گی۔

کیتھرین ایشٹن نے بھی آج لیتھوینیا کے دارالحکومت ولنیئس میں ایک اجلاس کے دوران کہا کہ انہوں نے جواد ظریف کے ساتھ فون پر بات کی ہے اور رواں ماہ کے اواخر میں وہ نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اُن کے ساتھ ملاقات کریں گی۔ ایشٹن کا کہنا تھا، "اس ملاقات میں ہم اپنی رسمی ملاقات کی تاریخ طے کریں گے"۔

عالمی برادری ایران کے ایٹمی پروگرام کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

مغرب کے دعووں کے باوجود تہران اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اُس توانائی کی پیداوار طبی اور سویلین مقاصد کے لیے ہے- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کی ایران کے ساتھ اس ضمن میں مذاکرات کی کوششیں ہر بار ناکام رہی ہیں۔

ایران کے نئے صدر حسن روحانی نے جمعرات کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ آئندہ اُن کے نئے وزیر خارجہ اور مغربی درس گاہوں سے تحصیل یافتہ سفارت کار جواد ظریف عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات کی سربراہی کریں گے۔ یہ ایران کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح تبدیلی کی نشاندہی ہے کیونکہ اب تک ایران کے سکیورٹی اہلکار مذاکرات کی حکمت عملی وضع کیا کرتے تھے۔

اِدھر آج جمعہ کو یورپی یونین کی ایک اعلیٰ عدالت نے متعدد ایرانی تجارتی اداروں اور شخصیات پر تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے ساتھ مبینہ وابستگی کے سبب لگی پابندیوں کو فاسخ قرار دے دیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایران کی سات بڑی تجارتی کمپنیوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے کی یورپی یونین کا فیصلہ غلط ہے اور اس کا کوئی جوازنہیں بنتا۔

ایران پر یورپی یونین کی طرف سے 2010ء میں اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیںتصویر: picture-alliance/dpa

لکسمبرگ میں قائم یورپی یونین کی اس دوسری بڑی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین ان ایرانی کمپنیوں پر لگے الزامات کے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں ایک ایرانی بینک کو وقت پر مطلع بھی نہیں کیا گیا تھا۔

عدالت نے پوسٹ بینک ایران، ایران انشورنس کمپنی، گُڈ لک شپنگ اور ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ بینک آف ایران کے یورپی یونین کی طرف سے منجمد کیے گئے اثاثوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے اراکین اس بارے میں ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر سکے ہیں کہ ایران کے مذکورہ تجارتی ادارے ایران کے مبینہ جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کے عمل میں معاونت کرتے رہے ہیں۔

اس عدالتی فیصلے کے باوجود ایرانی تجارتی اداروں پر یورپی یونین کی طرف سے لگی پابندیاں آئندہ دو ماہ تک نافذ العمل رہیں گی اور اس دوران ان کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اس بارے میں یورپی یونین میں شامل ممالک کی حکومتوں کی طرف سے متوقع اپیل کے سامنے آنے تک پابندیوں کا اطلاق رہے گا۔

ایران کے نئے وزیر خارجہ محمد جواد ظریفتصویر: valieamr

یورپی یونین ایران کے اہم ترین تجارتی پارٹنرز میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ ایران پر یورپی یونین کی طرف سے 2010ء میں اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں، جن کے تحت ایران کے چند چوٹی کی تجارتی شخصیات پر سفری پابندیاں بھی لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اُن کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے تھے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ان پابندیوں میں مزید سختی کا فیصلہ کرتے ہوئے 2012ء میں ایران سے تیل کی درآمدات پر بھی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں