’مغربی دنیا ہراساں نہیں ہو گی‘، تبصرہ
27 اکتوبر 2014پہلے مونٹریال میں ایک کار کے ساتھ یونیفارم میں ملبوس دو افراد پر حملہ کیا گیا، دو روز بعد جنگ کی ایک یادگار پر حملے کے بعد اوٹاوہ میں پارلیمنٹ کے اندر فائرنگ ہوئی۔ اس سال مئی میں برسلز کے یہودی عجائب گھر پر کیے جانے والے حملے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ ایک سال پہلے لندن میں ایک برطانوی فوجی کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس طرح کے سارے واقعات میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ تمام حملہ آور انتہا پسند مسلمان تھے اور جنہیں نشانہ بنایا گیا، اُن کا انتخاب محض اتفاقیہ طور پر کیا گیا تھا۔ مغربی دنیا کے بڑے شہروں میں تشدد کے اِن واقعات کا مقصد خوف کی فضا قائم کرنا ہے، جو کہ دہشت گردی کا بنیادی نصب العین ہے۔
ایسا کوئی واقعہ جرمنی میں بھی کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے کیونکہ مختلف رپورٹوں کے مطابق یہاں سے بھی 450 سے زیادہ انتہا پسند مسلمانوں نے شام یا عراق کا سفر اختیار کیا ہے تاکہ وہ وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے دہشت گردوں کے شانہ بشانہ لڑ سکیں۔ ان میں سے تقریباً ایک سو زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہو کر اور جنگ کا بھی تجربہ حاصل کرنے کے بعد واپس جرمنی بھی آ چکے ہیں۔ سلامتی سے متعلق ماہرین اِنہیں ٹِک ٹِک کرتے ٹائم بم قرار دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس خطرے کا سامنا کیسے کیا جائے؟ اگرچہ مونٹریال، برسلز یا لندن جیسے حملوں میں حملہ آوروں سے بچاؤ کا کوئی حقیقی اور مکمل طریقہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی اس میں گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ زندگی میں اور بھی بہت سے شعبوں میں مکمل تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتی لیکن ہم پھر بھی وہ کام کرتے ہیں۔ ایسے میں درست موقف وہ ہے، جو کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے اختیار کیا۔ اُنہوں نے اپنی قوم کو یہ پیغام دیا کہ ’ہم ہراساں نہیں ہو ں گے‘۔ اس پیغام کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر صورت میں ایک آزاد معاشرہ رہنا چاہتے ہیں۔
مغربی دنیا کے آزاد معاشروں میں آئندہ بھی ہر شخص کو آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل رہنا چاہیے، چاہے وہ شخص مسیحی ہو، یہودی ہو، مسلمان ہو، بودھ ہو یا کسی بھی اور عقیدے سے تعلق رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرے نئے تارکینِ وطن کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، خاص طور پر اُس صورت میں، جب اُن کے اپنے وطن میں اُن کی جان کو خطرہ ہو۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’ہم صرف مسیحیوں کو اپنے ہاں قبول کریں گے‘، اس لیے کہ ہم ایک آزاد معاشرہ ہیں۔
اور ہم ایک آزاد معاشرہ بنے رہنا چاہتے ہیں، بغیر کسی بھی خوف اور خطرے کے۔ ایک آزاد معاشرہ سب سے پہلے ایک روادار معاشرہ ہوتا ہے، جہاں ہر کوئی جو چاہے، سوچ اور کہہ سکتا ہے۔ یہ رواداری وہاں جا کر ختم ہوتی ہے، جہاں کسی اور شخص کی آزادی محدود ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں جرمنی میں جہادی پراپیگنڈے پر پابندی ہر اعتبار سے درست اور آئین و قانون کے مطابق ہے۔
کسی معاشرے کی طاقت کا پتہ کسی بحران ہی کی صورت میں چلتا ہے یعنی جب وہ دشمنوں کے مقابلے پر بھی اپنے اصولوں پر کاربند رہتا ہے۔ ہمارے قانون میں مساوات اور سب کی برابری کا اصول موجود ہے۔ چاہے انتہا پسند ہمارے انسانی وقار کی مکمل نفی ہی کیوں نہ کرتے ہوں اور چلتے ہوئے کیمروں کے سامنے ہمیں بے رحمی سے ذبح ہی کیوں نہ کرتے ہوں، ہم ایسے حملہ آوروں سے بھی آئین اور قانون کے مطابق ہی سلوک کریں گے۔
ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ہمیں ہراساں کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا رویہ دہشت گردی کی فتح کے مترادف ہو گا۔