مغربی ملکوں کی پالیسیاں، عسکریت پسندی کے لیے ایندھن، رپورٹ
29 جنوری 2015ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ رپورٹ منظر عام پر لاتے ہوئے اس امریکی نگران ادارے کے سربراہ کینتھ روتھ کا کہنا تھا، ’’ آج دنیا میں پیدا شدہ بحرانوں یا ان کی سنگینی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا انتہائی اہم کردار ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ آج بہت سی حکومتوں نے اپنے سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کیے جانے والے اقدامات کو انسانی حقوق کی نسبت مقدم رکھا ہوا ہے۔
چھ سو ساٹھ صفحات پر مبنی یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کینتھ روتھ کا کہنا تھا، ’’ مشکل حالات میں وہ (حکمران) یہ بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کو پش پشت رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق سیاسی حقوق کا لازمی جزو ہیں اور ان کو پس پشت ڈالنا نہ صرف غلط ہے بلکہ اس کے نتائج بھی منفی ثابت ہوتے ہیں۔
ان کی مثال دیتے ہوئے اُن کہنا تھا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی مقبولیت کے پیچھے 2003ء میں عراق پر کیے جانے والے امریکی حملے کا بھی ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی طرف سے ابو غریب جیل اور گوانتانامو میں واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئی تھیں اور وہاں سکیورٹی خلا بھی عراق جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا۔
کینتھ روتھ کا کہنا تھا کہ بعد ازاں امریکا اور برطانیہ نے نوری المالکی کی طرف سے سُنیوں کے خلاف بنائی جانے والی فرقہ ورانہ پالیسیوں پر اپنی نظریں بند رکھیں اور اسی حکومت کو ہتھیار فراہم کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں آئی ایس کا مقابلہ کرنے کے لیے ساٹھ ملکوں کا جنگی اتحاد تو بنا لیا گیا ہے لیکن کسی بھی ملک نے شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے صدر اسد کے خلاف مزید دباؤ بڑھانے کی کوششیں جاری نہیں رکھیں۔ روتھ کے مطابق اس طرح کی یکطرفہ پالسیاں آئی ایس کو مزید عسکریت پسند فراہم کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے اسی طرح کا رویہ مصر میں اپنایا گیا، جہاں جنرل عبدالفتاح السیسی کی طرف سے ’بے مثال جبر‘ کیا گیا اور اس کی ’شرمناک حد تک ناکافی مذمت‘ کی گئی۔
رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکا مصر میں مذہبی تنظیم اخوان المسلمون کے محمد مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کی مذمت کرنے سے پرہیز کرتا رہا، جس کی وجہ خطے میں امریکی مفادات اور اپنے اتحادی ملک اسرائیل کی سکیورٹی سے متعلق خدشات تھے۔ ہیومن رائٹس واچ کے سربراہ کے مطابق امریکا کی طرف سے السیسی کی حمایت ’ مصر اور پورے خطے میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک بُرا پیغام تھی۔‘
کینتھ روتھ کا کہنا تھا، ’’ اسلامک اسٹیٹ اب یہ دلیل آسانی سے دے سکتی ہے کہ اقتدار میں آنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ تشدد کا ہے۔ کیونکہ جب اسلام پسند منصفانہ انتخابات اور جیت کے ذریعے اقتدار میں آئے تو اقتدار زبردستی ان سے چھین لیا گیا اور بین الاقوامی سطح پر کم ہی احتجاج کیا گیا۔‘‘
اسی طرح اس رپورٹ میں یورپی ملکوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ روس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مغرب ایک عرصے سے وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ اب یوکرائن کی حکومتی فورسز بھی انہی کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن مغرب یوکرائن کو روسی جارحیت کے شکار کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور یوکرائن کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔