شامی صدر بشار الاسد نے مغربی ممالک کے ساتھ سکیورٹی تعاون کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب تک یہ ممالک شامی اپوزیشن اور باغی گروپوں کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کرتے، ان سے تعاون ممکن نہیں ہے۔
اشتہار
شامی صدر بشار الاسد نے بیس اگست بروز اتوار دمشق میں منعقدہ ٹریڈ فیئر میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا کہ فی الحال مغربی ممالک سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کیے جائیں گے اور شام میں ان کے سفارتخانے کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی تقریر ختم کی تو اس عمارت کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا، جہاں ٹریڈ فیئر منعقد کیا جا رہا تھا۔
اس حملے کی وجہ سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ شام میں خانہ جنگی کے باعث یہ ٹریڈ میلہ پانچ برس بعد پہلی مرتبہ منعقد کیا جا رہا تھا۔ سرکاری سطح پر اس حملے کی تصدیق تو کی گئی ہے لیکن ہلاکتوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ اس کارروائی میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے ہیں۔
حلب: معمول کی زندگی کی طرف لوٹتا ہوا
01:41
بشار الاسد نے یہ تازہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے، جب روسی فضائیہ اور ایران نواز ملیشیا گروہوں کی مدد سے ملکی دستوں نے کئی محاذوں پر کامیابیاں سمیٹ لی ہیں۔
بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر کئی مغربی ممالک نے اسد کو فوری طور پر اقتدار سے ہٹانے کا مطالبہ بھی ختم کر دیا ہے۔
اسد نے کہا کہ ان کے ملک نے مغربی طاقتوں کی طرف سے دمشق حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔
اسد نے مزید کہا کہ اگرچہ انہیں ابھی تک جنگ میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن اس چھ سالہ بغاوت کو ناکام بنانے کی کوشش جاری رہے گی۔
شامی صدر بشار الاسد نے اعتراف کیا کہ روس، ایران اور لبنانی جنگجو گروہ حزب اللہ کی معاونت سے ملکی فوج کو کامیابیاں ملی ہیں۔ اسد کے مطابق وہ روس کی ثالثی میں مزید سیز فائر معاہدوں کو خوش آمدید کہیں گے۔
بشار الاسد نے مزید کہا کہ جب سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات بحال کرنے کا وقت آئے گا تو ان کی حکومت پہلے مشرقی ممالک سے رابطہ کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا، ’’یہ بہت سادہ سی بات ہے کہ مغربی ممالک کے ساتھ سکیورٹی تعاون نہیں کیا جائے گا اور ملک میں ان کے سفارتخانے نہیں کھولے جائیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان مغربی ممالک کو پہلے دہشت گردوں سے رابطے ختم کرنا ہوں گے، پھر شامی حکومت ان سے مذاکرات شروع کرے گی۔
شام میں گزشتہ چھ برسوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث چار لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس بحران نے ملک کی نصف آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ شامی بحران کے خاتمے کی خاطر مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔