مغربی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں، آسٹریلیا
15 دسمبر 2018
آسٹریلیا اب اُن چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جنہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر چکے ہیں۔
اشتہار
آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے یروشلم کو اسرائیل کا باضابطہ دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امن کے قیام تک آسٹریلوی سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل نہیں کیا جائے گا۔ اس مناسبت سے ابھی تک اسرائیلی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بندرگاہی شہر سڈنی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم موریسن نے کہا کہ آسٹریلیا مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت، پارلیمنٹ کنیسٹ اور حکومتی اداروں کے صدرمقام کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل میں سفارت خانے کو اُس وقت منتقل کیا جائے گا جب یہ قابل عمل ہو گا اور اس شہر کے حتمی اسٹیٹس کا تعین ہو جائے گا۔
آسٹریلوی وزیراعظم کے مطابق مغربی یروشلم میں اُن کے سفارت خانے کی نئی عمارت کے مقام کا تعین کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم موریسن نے رواں برس اکتوبر میں اپنی ملک کی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا تھا۔ سڈنی میں کیا جانے والا اعلان اُسی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے کا تسلسل خیال کیا گیا ہے۔
موریسن کے مطابق ابتدائی طور پر یروشلم میں آسٹریلوی حکومت اپنا تجارتی اور دفاعی دفتر قائم کرے گی۔ آسٹریلوی وزیراعظم نے اپنے حکومت موقف کا اعادہ بھی کیا کہ وہ اس تنازعے کے دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی حلقے موریسن کے فیصلے کو اگلے برس کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے حصول سے منسلک کرتے ہیں۔
موریسن کے اکتوبر میں پالیسی کی تبدیلی کے بیان کے خلاف آسٹریلیا کے قرب میں واقع سب سے بڑی مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں عوامی سطح پر شدید بےچینی اور ناراضی کا اظہار سامنے آیا تھا۔ آج پندرہ دسمبر کو آسٹریلوی حکومت نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ انڈونیشیا کی سیاحت یا کاروباری دوروں کے دوران انتہائی احتیاط کریں۔
یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی بھی یروشلم کو مستقبل کی آزاد ریاست کا دارالحکومت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دونوں فریقوں کے درمیان ایک برس سے زائد عرصے سے امن مذاکرات کا سلسلہ معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اس دوران فلسطینی علاقے غزہ میں اسرائیل مخالف پرتشدد مظاہروں اور احتجاج میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔