1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغرب القاعدہ کی مدد کی بھاری قيمت ادا کرے گا، بشار الاسد

18 اپریل 2013

شامی صدر نے ايک انٹرويو ميں کہا ہے کہ مغربی ممالک کو ’شام ميں القاعدہ کی مدد کرنے کی بھاری قيمت ادا کرنی پڑے گی۔‘ ادھر باغيوں اور شامی فوج کے درميان لبنان کی سرحد کے قريب ہونے والی ايک جھڑپ ميں 27 افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔

تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز کی عمان سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق باغيوں نے قصير ايئر ڈيفنس بيس نامی ايک حکومتی تنصيب پر حملہ کيا، جس کے جواب ميں شامی فوج نے اپنی کارروائی کرتے ہوئے ستائيس افراد کو موت کے گھاٹ اتار ديا۔ فوج نے راکٹوں اور ہوائی بموں کے ذريعے باغيوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنايا۔

يہ علاقہ، جہاں گزشتہ روز يہ جھڑپ ہوئی، لبنان کے بکا نامی علاقے سے محض 14 کلوميٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق يہ علاقہ صدر اسد کی حامی لبنان کی حزب اللہ نامی تنظيم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

شامی اپوزنشن کے ايک اہلکار نادر الحسينی کا اس بارے ميں کہنا ہے کہ قصير ايئر ڈيفنس بيس کو حکومت کی جانب سے آس پاس کے گاؤں کو نشانہ بنانے کے ليے استعمال کيا جا رہا تھا اور اسی ليے يہ اڈہ باغيوں کا ہدف بنا۔

دريں اثناء شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کے حکومت ميں رہنے يا نہ رہنے کا فيصلہ شام کے عوام کریں گے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق صدر اس بات کے ذريعے ممکنہ طور پر يہ اشارہ دينا چاہتے ہيں کہ وہ سن 2014 ميں شام ميں ہونے والے انتخابات ميں حصہ لے سکتے ہيں۔ صدر اسد نے يہ بات الاخباريہ نامی ايک ملکی ٹيلی وژن چينل کے ساتھ انٹرويو کے دوران کہی، جو شام ميں بدھ کی رات نشر کيا گيا۔ انہوں نے کہا، ’’عوام کی حمايت کے بغير صدر کی کرسی کی کوئی اہميت نہيں ہوتی۔ صدر کے حکومت کا حصہ رہنے يا نہ رہنے کے معاملے ميں اصل اہميت عوام کے فيصلے کی ہوتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ روس اور ايران، جنہيں شام کے اتحادی ملک مانا جاتا ہے، اس بات کے حامی ہيں کہ اگر صدر اسد کو اقتدار سے عليحدہ کرنا ہی ہے تو ايسا شامی عوام کے فيصلے کے تحت انتخابی عمل کے ذريعے ہونا چاہيے۔

شامی صدر بشار الاسدتصویر: Reuters

قريب ايک گھنٹے طويل اس انٹرويو ميں صدر اسد نے شامی اپوزيشن کو بھی سخت تنقيد کا نشانہ بنايا اور ان کی حب الوطنی اور عوام کے مابين ان کی مقبوليت پر بھی سوالات اٹھائے۔

اسی انٹرويو کے دوران شامی صدر کا يہ بھی کہنا تھا کہ مغربی ممالک کو ’شام ميں القاعدہ کی مدد کرنے کی بھاری قيمت ادا کرنی پڑے گی۔‘ انہوں نے کہا، ’’مغربی ملکوں نے افغانستان ميں القاعدہ کے آغاز کے دور ميں اس کی معاونت کی، جس کا انہيں خميازہ بھگتنا پڑا۔ اب يہ ممالک شام اور ليبيا سميت ديگر ملکوں ميں ايسا ہی کچھ کر رہے ہيں اور اس کی بھی انہيں بھاری قيمت ادا کرنا ہوگی۔‘‘

شام ميں مسلح حکومت مخالف تحريک کا آغاز قريب دو برس قبل ہوا تھا، جس ميں اب تک اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ستر ہزار سے زائد افراد اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔

(as/ia (AFP, Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں