1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغل سرائے اب دین دیال اپادھیائے

18 اکتوبر 2017

بھارت میں گزشتہ روز ایک معروف ریلوے اسٹیشن 'مغل سرائے' کا نام تبدیل کر کے اس کا نام ایک ہندو قوم پرست رہنما کی نسبت سے 'دین دیال اپادھیائے' کر دیا گيا ہے۔

Indien Umbennenung von Bahnhof in Neu Delhi
تصویر: DW/Z. Salah ud Din

نریندر مودی کی حکومت نے سب سے پہلے دلی کے مشہور 'اورنگ زیب' روڈ  کا نام بدل کر اس کی ابتدا کی تھی اور اب دارالحکومت دلی کے مشہور زمانہ 'اکبر روڈ کا' نام بدلنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ حکم راں جماعت بی جے پی کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا ہے کہ  آگرہ کا تاج محل بھارت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے اور ملک کی تاریخ میں تاج محل کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ کچھ روز پہلے ہی ریاستی حکومت نے تاج محل کو محکمہء سیاحت کے کتابچے سے نکال دیا تھا۔

بھارتی ’ریپ گرو‘ کو دس برس قید کی سزا، سکیورٹی انتہائی سخت

گائے کو بچانے کے ليے انسانوں کا قتل ناقابل قبول ہے، مودی

ٹرک میں بھینسیں کیوں؟ ’نئی دہلی میں تین افراد پر حملہ‘

 گذشتہ ماہ ہی ریاست مہاراشٹر میں حکام نے اسکول کی نصابی کتابوں سے مغلیہ سلطنت سے متعلق تاریخی مواد کو حذف کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ حکام کے مطابق مغل سلطنت کی تاریخ کو نصاب سے ہٹانے کا فیصلہ اس لیے کیا گيا تاکہ اس کی جگہ ایک مراٹھی ہندو حکمراں چھترپتی شیواجی کی شخصیت کو نمایاں مقام دیا جا سکے۔

ریاست راجستھان میں یونیورسٹی سطح کی تاریخ کی کتابوں کو تبدیلی کرنے کے ایک منصوبے پر پہلے سے کام جاری ہے جس میں یہ پڑھایا جائے گا کہ ہلدی گھاٹی کی جنگ میں مغل بادشاہ اکبر کو شکست اور رانا پرتاپ کی فتح ہوئی تھی، جبکہ برصغیر کی تاریخ سے متعلق اب تک کی تمام مستند تاریخی کتابوں میں یہی درج ہے کہ اس جنگ میں اکبر کی فوج نے رانا پرتاپ کو شکست دی تھی۔ 

بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تو مغلیہ تاریخ پر سوال اٹھاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ آخر مغل بادشاہ اکبر کو 'اکبر اعظم' کیوں کہا جاتا ہے اور رانا پرتاپ کو گریٹ یا 'اعظم' کا خطاب کیوں نہیں دیا گيا؟ ایک سینیئر ریاستی وزیر کالی چرن کا کہنا ہے کہ 'نسل در نسل مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے اور اگر اب اس کو درست کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جائے کہ 'اصل میں اس جنگ کے فاتح رانا پرتاپ تھے تو اس میں برائی کیا ہے؟'

تاج محل کا نام بھی سیاحتی کتابچے سے نکالا جا چکا ہےتصویر: DW

بھارت میں جب سے نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے مغلیہ دور کی تاریخ، ان کی یادگاریں اور عمارتیں مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔ حکومت کی ایما پر سخت گیر ہندو رہنماؤں کی جانب سے  یہ باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مسلم حکمراں، بالخصوص مغلوں، نے بھارت کی تہذیبی قدروں پر وار کیا تھا۔

لیکن بھارت کے کئی سرکردہ مورخ اور دانشور اس سے متفق نہیں ہیں۔ مورخ ہربنس مکھیا کا کہنا ہے کہ یہ ہندو نظریاتی تنظیموں کا ایک جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ ’’اس کا تاریخ سے کچھ بھی واسطہ نہیں، اس کا واحد مقصد سیاسی مفاد کے لیے ہندوؤں کو متحد کرنا ہے۔‘‘

گائے نے بھارتی معاشرے کو تقسیم کر دیا

03:24

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی کیا  جا رہا ہے ’’اس کا اصل مقصد بھارتی مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے تاکہ ہندو ریاست کے قیام کے لیے ہندوؤں کو متحد کیا جا سکے۔ یہ ایک سیاسی کھیل ہے اور یہ لوگ اپنے سیاسی عزائم کے لیے تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

تجزیہ کار ارملیش بھی ہر بنس مکھیا سے متفق ہیں۔ ان  کا کہنا ہے کہ بھارت کو اب ایک ہندو ملک بنانے کی باتیں کھل کر ہو رہی ہیں اور مغلوں سے نفرت کا اظہار  اسی کوشش کا ایک حصہ ہے تاکہ ’’تمام ہندوؤں کو متحد کرکے ایک فاشسٹ حکومت قائم کی جا سکے۔‘‘

معروف مصنف اور تجزیہ کار کرشنا راما چندرن کا کہتے ہیں کہ بیشتر ہندو نظریاتی تنظیمیں تاریخ اور تاریخی ورثے کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار پریہ درشن کا کہنا ہے کہ بھارت میں ایک خاص طبقہ مسلسل دوسرے نظریات کی تردید میں لگا رہا ہے جس میں حالیہ دنوں میں بہت شدت آئی ہے۔ تاریخ کے ساتھ دھوکا کرنے کی سعی کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہو،  جس کی وجہ سے یہ فکر مضبوط بھی ہوئی ہے۔

پریہ درشن کے مطابق ہندو تنظیمیں تاریخ پر حملہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے۔

سیاسی مبصرین کا  کہنا ہے کہ حکومت معاشی ترقی اور روزگار جیسے مسائل سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور اسی سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسے جذباتی مسائل ابھارے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں