1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مغوی سوئس جوڑے کو قبائلی علاقے میں پہنچا دیا گیا، حکام

5 جولائی 2011

پاکستانی صوبہ بلوچستان سے اغوا کیے جانے والے سوئس جوڑے کو افغانستان کی سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ بات صوبائی حکام نے بتائی ہے۔

اکتیس سالہ اولیور ڈیوڈ اور اٹھائیس سالہ ڈانیئلہ کو گزشتہ جمعہ کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا، جب وہ بلوچستان میں سفر کر رہے تھے۔ اس پاکستانی صوبے کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی ملتی ہیں۔

بلوچستان کے سیکریٹری داخلہ ظفراللہ بلوچ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’ہمیں پتہ چلا ہے کہ سوئس جوڑے کو قبائلی علاقے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔‘‘

ظفراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اس جوڑے کو غالباﹰ بلوچستان کے جنوبی مغربی علاقے ژوب کے راستے قبائلی علاقے میں منتقل کیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نشاندہی نہیں کی کہ وہ اس وقت اس علاقے میں کس جگہ ہو سکتے ہیں۔

صوبائی سیکریٹری داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیرملکی جوڑے کی بازیابی کے لیے بلوچستان میں تلاش جاری رہے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں جرائم پیشہ عناصر نے اغوا کیا ہے یا شدت پسندوں نے، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے۔

یہ جوڑا اٹھائیس جون کو بھارت سے پاکستان پہنچا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ صوبہ پنجاب سے بلوچستان میں داخل ہوا اور شاید وہاں سے ایران جانا چاہتا تھا۔

قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی ہوتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی تک اغواکاروں نے کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا۔ پاکستان میں قائم سوئس سفارت خانہ اپنے ان شہریوں کے اغوا کی تصدیق کر چکا ہے۔ سفارتی حکام نے اس جوڑے کی بخیریت بازیابی کی امید بھی ظاہر کی ہے۔

افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستان کا قبائلی علاقہ القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کے لیے بدنام ہے۔ امریکہ اس علاقے کو خطرناک ترین خطہ قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن حکام اسے القاعدہ کا گلوبل ہیڈکواٹر بھی کہتے ہیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ اس علاقے میں طالبان اور القاعدہ کے کمانڈروں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون حملے کرتا ہے جب کہ اس خطے کو انٹیلی جنس ’بلیک ہول‘ بھی کہا جاتا ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں