فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ پیرس حکومت اسرائیلی حکومت کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے خلاف ہے۔ انہوں نے نیتن یاہو سے ملاقات میں مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی پر بھی زور دیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سولہ جولائی بروز اتوار اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات میں کہا کہ فرانسیسی حکومت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی یہودی آباد کاری کی مخالفت کرتی ہے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ ’تمام فریقین‘ کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ ماکروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی بحالی ہونا چاہییں اور اس تناظر میں دو ریاستی حل کو بنیاد بنانا چاہیے۔
غزہ کے عوام تاریکی میں رہنے پر مجبور
02:36
ماکروں نے پیرس میں نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں زور دیا کہ اسرائیلیوں اور فلسطینوں کو مل کر امن کے ساتھ رہنا چاہیے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے خاتمے کی خاطر تعطل کے شکار مذاکرات کی بحالی ممکن ہو جائے گی۔ سن دو ہزار چودہ سے یہ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔
سن انیس سو بیالیس میں نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی یہودیوں کی گرفتاری کے سلسلے میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی یادگاری تقریب میں شرکت کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو فرانس کا دورہ کر رہے ہیں۔
تب سولہ اور سترہ جولائی کو جرمن نازی حکومت نے تیرہ سو یہودیوں کو حراست میں لیتے ہوئے مختلف ’نازی ڈیتھ کیمپس‘ میں منتقل کیا تھا، جن میں چار ہزار بچے بھی شامل تھے۔
بینجمن نیتن یاہو ایسے پہلی اسرائیلی وزیر اعظم ہیں، جو Vel d'Hiv کے نام سے منائی جانے والی اس خصوصی یادگاری تقریب میں شرکت کی خاطر فرانس آئے ہیں۔
مئی میں فرانسیسی صدر منتخب ہونے والے ایمانوئل ماکروں اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے مابین بھی پہلی سرکاری ملاقات ہوئی ہے۔ ماکروں نے بدھ کے دن ہی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی تھی۔
تب ماکروں نے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی طرف سے نئے مکانات کی تعمیر کے منصوبہ جات کی مخالفت کی تھی۔
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔