مقتدیٰ الصدر سیاست سے کنارہ کش
17 فروری 2014عراق کے سابق آمر صدام حسین کے دور اور خاص کر اُن کے زوال کے بعد، امریکی فوج کشی کے دوان مقتدیٰ الصدر کو انتہائی اہم شیعہ سیاسی تحریک کا رہنما خیال کیا جاتا رہا ہے۔ عراقی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر الصدر کا سیاست کو خیرباد کہہ دینے کا اعلان حتمی ہوا تو عراقی سیاست کے ایک اہم رہنما سے وابستہ ایک سیاسی باب اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔ عراق میں امریکی فوج کے بھی وہ سخت مخالف تھے اور امریکی فوج اپنے قیام کے دوران اُن کو خاص طور پر گرفتار کرنے کے موقع تلاش کرتی رہی تھی مگر وہ حراستی جال میں پھنس نہ سکے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کو مقتدیٰ الصدر کے بیان کی نقل موصول ہوئی ہے۔ اسی طرح الصدر کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا بیان بھی اُن کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔ اس بیان میں شیعہ رہنما کا کہنا ہے کہ وہ الصدر خاندان کے وقار اور عزت کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاست کو خیر باد کہہ رہے ہیں۔ الصدر نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ تمام سیاسی معاملات میں مداخلت سے دور ہو رہے ہیں اور عراقی سیاست میں کوئی بلاک اُن کی نمائندگی نہیں کرے گا اور اسی طرح حکومت یا پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کسی بھی قسم کی کوئی ملازمت یا کوئی بھی حیثیت وہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کوئی دعویٰ کرتے ہیں۔
عراق میں عام پارلیمانی انتخابات رواں برس اپریل میں ہو رہے ہیں۔ اس وقت نوری المالکی کی حکومت میں اُن کی سیاسی تحریک کے چھ اراکین مختلف وزارتوں پر براجمان ہیں۔ عراق کی 325 رکنی پارلیمنٹ میں اُن کے سیاسی ونگ کے پاس 40 نشستیں ہیں۔ سیاست کو خیرباد کہنے والے بیان میں مقتدیٰ الصدر کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی کے تمام دفاتر کو بند کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کی ضرور وضاحت کی کہ اُن کی سیاسی تحریک کے وہ دفاتر جو سوشل ویلفیئر، میڈیا اور تعلیم کے لیے وقف ہیں، وہ بدستور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
اس کا ابھی تک سیاسی حلقوں کو یقین نہیں کہ الصدر کا یہ فیصلہ حتمی ہے۔ اُن کی سیاسی تحریک کے ورکر بھی اپنے لیڈر کے اعلان سے حیران و پریشان ہیں۔ اُن کی سیاسی تحریک سے وابستہ ایک اہم کارکن نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ الصدر اپنا بیان واپس نہیں لیں گے اور اُن کا فیصلہ حتمی ہے۔
الصدر نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ سیاست چھوڑنے کا فیصلہ اسلامی قوانین کی روشنی میں کیا گیا ہے تاکہ خاندان کے مخصوص وقار کو سلامت رکھا جائے اور خاص طور پر الصدر خاندان کے شہدا کا احترام بھی اس فیصلے میں شامل ہے۔ مقتدیٰ الصدر اور اُن کے خاندان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد محمد محمد صادق اور اُن کے دو بھائیوں کو سن 1999 میں صدام حسین کے حکم پر گولیاں مار کرک ہلاک کر دیا گیا تھا۔
برطانیہ میں قائم AKE گروپ سے وابستہ تجزیہ کار جان ڈریک کا کہنا ہے کہ الصدر کا سیاست کو چھوڑ دینے کی ایک وجہ الیکٹورل عمل کی نامقبولیت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہر عراقی ووٹ دینے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن امیدوار اُن کی توقعات کے برعکس نکل رہے ہیں۔ ڈریک کے خیال میں وہ سیاست سے بالا ہو کر ایک ایسی شخصیت کا روپ دھارنے کے متمنی بھی ہو سکتے ہیں جس کا اثر مذہب اور سیاست پر خاص انداز میں محسوس کیا جا سکے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی فوج کی عراق میں موجودگی کے درمیان اُن کی مہدی آرمی نے کئی جھڑپوں میں امریکی فوج کو سخت مزاحمت دی تھی۔