مقتول شہباز بھٹی کے گاؤں میں بڑھتا تناؤ
12 مارچ 2011ایک صدی تک خوش پور کو مذہبی استحصال کے خلاف ایک اہم مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اِس کی مسلمان اور مسیحی آبادی مل جُل کر رہنے کی ایک مثال بنی رہی ہے۔ تاہم اِس سال توہینِ رسالت کے متنازعہ قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والے دو سیاستدانوں کے قتل کے بعد سے پاکستان بھر کی طرح اِس گاؤں کی مسیحی اقلیت بھی خود کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی میں مسیحی اقلیت سمیت غیر مسلموں کی شرح تین فیصد ہے۔ تاہم خوش پور بنیادی طور پر مسیحی آبادی کا گاؤں ہے۔ یہاں مسیحی اکثریت میں ہیں اور اُن کی آبادی پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ مسلمان اِس گاؤں میں اقلیت میں ہیں اور اُن کی تعداد محض 150 ہے۔
اِس گاؤں کے 22 سالہ شاہد سیموئل نے بتایا:’’میرا بہترین دوست عامر ایک مسلمان ہے۔ ہم اکٹھے کھیلے، اکٹھے تعلیم حاصل کی، وہ کبھی کبھی میرے ساتھ چرچ بھی چلا جاتا ہے۔ اب لیکن ہم بڑھتی ہوئی کشیدگی سے خوفزدہ ہیں۔ یہ دونوں ہی مذاہب کے پیروکاروں کو ہلاک کر رہی ہے۔‘‘
اِس گاؤں کے نیلی پگڑی پہنے اور ہاتھ میں حقہ تھامے 65 سالہ باسی ایمانوئل کا کہنا تھا:’’لوگ اِس قانون کو اپنے ذاتی جھگڑے طے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہم مسیحیوں اور مسلمانوں نے ماضی میں کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ چیزیں ہمارے درمیان فاصلے پیدا کر دیں گی۔ اب لیکن دونوں مذہبی برادریوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، جونہ ملک کے لیے اچھی ہے اور نہ معاشرے کے لیے۔‘‘
شہباز بھٹی کی قبر خوش پور کے ایک مسلمان باسی غفران ارشد نے کھودی تھی۔ اُس نے بتایا کہ اقلیتی امور کے اِس 42 سالہ وفاقی وزیر کے قتل تک اُس نے آسیہ بی بی کا نام بھی نہیں سنا تھا:’’ہم اِس گاؤں میں اپنے بچپن سے رہ رہے ہیں۔ ہم اُن کی عزت کرتے ہیں اور زندگی کے مختلف معاملات میں اُن کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
صوبہء پنجاب ہی کی ایک غریب مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو گزشتہ برس توہینِ رسالت کے قانون کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔ بی بی کے وکلاء کا کہنا ہے کہ دیگر بہت سے کیسز کی طرح اِس معاملے میں بھی گاؤں کے باسیوں کے درمیان ایک اور تنازعہ اصل وجہ تھا۔
خوش پور گاؤں کی بنیاد ا یک رومن کیتھولک پادری نے 1903ء میں ڈالی تھی۔ مسیحی آبادی کے حامل دیگر علاقوں کے برعکس خوش پور کی مسیحی آبادی پڑھی لکھی ہے اور اِس کے کئی مسیحی ارکان ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ اور وکیل بنے ہیں۔
رومن کیتھولک بشپ جون جوزیف بھی یہیں دفن ہیں، جنہوں نے 1998ء میں توہینِ رسالت کے قوانین کے خلاف احتجاج کے طور پر خود کو گولی مار لی تھی۔ فادر جورج ابراہیم بھی یہیں سپردِ خاک ہیں، جو ایک مسیحی اسکول کے لیے لڑتے رہے اور 2003ء میں مارے گئے تھے۔
اب تک حکومتِ پاکستان توہینِ رسالت کے قانون میں ترمیم کے سلسلے میں بین الاقوامی مطالبات کے خلاف مزاحمت کرتی چلی آ رہی ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ وہ اِس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ایک مقامی باشندے جیکب پال نے کہا:’’شہباز بھٹی کے قتل کے بعد مسیحی بہت افسردہ اور بہت ناراض ہیں۔ اُن کے دل زخمی ہیں اور وہ اس ملک میں خود کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ آج کل پاکستان کی مسیحی آبادی شہباز بھٹی کی یاد میں چالیس روز کا سوگ منا رہی ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس