جمال خاشقجی قتل معاملہ: سعودی ولی عہد کے خلاف مقدمہ دائر
21 اکتوبر 2020
صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے دو برس قبل ترکی میں خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور 28 دیگر افراد کے خلاف ایک امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
اشتہار
منگل کے روز واشنگٹن میں دائر کیے گئے اس مقدمے میں خدیجے چنگیز اور امریکا سے سرگرم انسانی حقوق کی ایک تنظیم ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناو (DAWN) نے جمال خاشقجی کی موت کی وجہ سے پہنچنے والے ذاتی صدمہ اور مالی نقصانات کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔ مقدمے پر کارروائی شروع ہوگئی ہے۔
ترک شہری خدیجے چنگیز اور ڈان نے امریکی عدالت میں دائر فوجداری کیس میں جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور 28 دیگر افراد کو فریق بنایا ہے۔ تاہم سعودی ولی عہد نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
امریکا میں مقیم صحافی اور کالم نویس سعودی شہری جمال خاشقجی سعودی حکومت کے سخت ناقد تھے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں بعض دستاویز حاصل کرنے کے لیے دو اکتوبر 2018 کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن انہیں دوبارہ واپس نکلتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ فارینزک ڈاکٹر اور انٹلیجنس افسران پر مشتمل سعودی اہلکاروں کی ایک ٹیم استنبول پہنچی تھی اور اس نے قونصل خانے میں خاشقجی سے ملاقات کی۔ جس کے بعد ان کا قتل کردیا گیا اور ان کی لاش کے ٹکڑ ے ٹکڑے کردیے گئے، ان کی باقیات کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔
امریکا میں مقدمہ
خدیجے چنگیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'جمال کا خیال تھا کہ امریکہ میں کچھ بھی ممکن ہے اور میں انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے امریکہ کے نظام عدل پر اعتماد کرتی ہوں۔‘
خدیجے چنگیز نے جمال خاشقجی کی موت پر ذاتی چوٹ اور مالی نقصانات کا دعویٰ کیا ہے جبکہ خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ 'ڈان‘ کا کہنا ہے کہ اس کے بانی کے نہیں رہنے کی وجہ سے اس کے کاموں میں رکاوٹ آئی ہے۔
دائر کردہ مقدمے میں جیوری کی طرف سے طے کردہ ہرجانے کی رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس قتل کے سازش میں ملوث افراد امریکا سے باہر رہتے ہیں اس لئے مقدمے کی کارروائی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اشتہار
سعودی عرب میں مقدمہ
خاشقجی کے قتل پر دنیا بھر میں ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا اور ترکی اور امریکا کے دباو کے بعد سعودی عرب نے اس معاملے میں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے آٹھ افراد کو جیل میں ڈال دیا تھا۔ تاہم سعودی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ قتل کسی سازش کا نتیجہ نہیں تھا۔ سعودی عدالت نے شواہد کے باوجود شاہی خاندان کے دو اہلکاروں کو بری کردیا تھا۔ خدیجے چنگیز نے عدالت کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
جمال خاشقجی کیس پر کام کرنے والی اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کیلامارڈ نے بھی سعودی مقدمے کی سماعت کو 'انصاف کے منافی‘ قرار دیا تھا اور آزادانہ تحقیقات کی اپیل کی تھی۔
انھوں نے اس قتل کے سلسلے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے شواہد موجود ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
خاشقجی کی منگیتر خدیجے کا کہنا ہے کہ دونوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق پہلے ہی شادی ہوچکی تھی اور وہ سول میرج کے تحت نکاح کے لیے قانونی ضرورتوں کو پورا کر رہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ملزمین کو خاشقجی کے امریکی تعلقات کا علم تھا اور انہوں نے خاشقجی کو خاموش کرنے کے لیے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تاکہ وہ امریکا میں رہتے ہوئے عرب دنیا میں جمہوریت کے لیے اپنی کاوشیں جاری نہ رکھ سکیں۔
سعودی ولی عہد نے اس واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا تھا تاہم انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے رہنما کی حیثیت سے وہ اس کی 'پوری ذمہ داری قبول‘ کرتے ہیں خاص طور پر اس لیے کیونکہ یہ جرم ایسے افراد سے مرتکب ہوا جو سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)
سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے