مقدس مقامات کی بین الاقوامی حیثیت کا قطری مطالبہ ’اعلان جنگ‘
عاطف بلوچ، روئٹرز
30 جولائی 2017
سعودی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ مقدس اسلامی مقامات کو بین الاقوامی حیثیت دینے کا قطری مطالبہ ’اعلان جنگ‘ ہو گا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا دوحہ حکومت نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب یہ حق رکھتا ہے کہ اگر کوئی سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقامات کو بین الاقوامی حیثیت دینے کا مطالبہ کرے، تو اس پر بھرپور ردعمل ظاہر کیا جائے۔
تیس جون بروز اتوار العربیہ نیوز ویب سائٹ پر جاری کردہ الجبیر کے اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر قطر ایسا کوئی مطالبہ کرتا ہے، تو ریاض حکومت اسے سعودی عرب کے خلاف ’اعلان جنگ‘ تصور کرے گی۔
عادل الجبیر نے کہا، ’’قطر کا مطالبہ کہ مقدس مقامات کو بین الاقوامی حیثیت دی جائے، جارحانہ اور سعودی عرب کے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ریاض حکومت ایسے کسی بھی مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گی۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا قطر نے ایسا کوئی مطالبہ کیا بھی ہے۔ تاہم دوحہ حکومت کئی مرتبہ یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ سعودی حکومت ’حج کو سیاسی‘ بنا چکی ہے۔
قطر کا بحران: کون کس کے ساتھ ہے؟
02:37
یہ بات اہم ہے کہ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے باوجود سعودی عرب اور قطر کے مابین کشیدگی جاری ہے۔
سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر پر الزام عائد کر رکھا ہے کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے علاوہ ہمسایہ ممالک میں دخل اندازی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ تاہم دوحہ حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے انہی الزامات کے تحت قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہیں اور دوحہ کے خلاف پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔
ان عرب ممالک نے قطر سے تیرہ مطالبات بھی کر رکھے ہیں، جن میں الجزیرہ ٹیلی وژن چینل اور قطر میں ترک فوجی اڈوں کی بندش کے مطالبے بھی شامل ہیں۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ خلیجی ممالک کا یہ بحران مذاکرات سے حل کر لیا جائے۔ قطر ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے جبکہ وہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کے ان مطالبات کو بھی ’ناقابل قبول‘ قرار دے چکا ہے۔
دوسری طرف ایک تازہ پیشرفت میں سعودی عرب اور اس کے تین اتحادی عرب ممالک قطری بحران کے خاتمے کی خاطر مشروط مذاکرات پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ اس ملاقات میں قطر پر اضافی پابندیوں کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔
سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے تیس جولائی بروز اتوار مناما میں ایک ملاقات کے بعد کہا کہ اگر دوحہ حکومت اعلان کرتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور ہمسایہ ممالک کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی کا سلسلہ ترک کرتی ہے، تو قطر کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطر حکومت تیرہ مطالبات پر سنجیدگی سے ردعمل ظاہر کرے۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔