مقدونیہ کی پولیس نے متعدد چھاپے مار کر انسانوں کی اسمگلنگ کے شبے میں 13 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ یونان میں موجود مہاجرین کو غیر قانونی طور پر سربیا اور دیگر مغربی ممالک منتقل کرنے کی کوشش میں تھے۔
اشتہار
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مقدونیہ کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار کیے گئے اسمگلر جن مہاجرین کو یونان سے سربیا لانے کی کوشش میں تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ پولیس نے مقدونیہ کے دارالحکومت اسکوپیئے اور دو دیگر شہروں میں مختلف گھروں پر چھاپے مارے اور ایک بچے سمیت تیرہ افراد کو حراست میں لے لیا۔
مقدونیہ کے پبلک سکیورٹی کے ڈائریکٹر لازو ویلکووزیکی کے مطابق ان تین شہروں میں یہ کارروائی دراصل بین الاقوامی اسمگلروں کے ایک نیٹ ورک کے خلاف کی گئی۔ یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام کی خاطر دیگر یورپی ممالک کی طرح مقدونیہ میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس تازہ ترین کارروائی میں گرفتار کیے جانے والے مشتبہ افراد جن مہاجرین کو اسمگل کرنے کی کوشش میں تھے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ پولیس کے مطابق دس دیگر مشتبہ افراد کی گرفتاری کی وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق پیر کے دن سکیورٹی اہلکاروں نے ان مشتبہ افراد کی چھ گاڑیوں، ستائیس ہزار یورو کی نقد رقم، ایک ہینڈ بیگ اور موبائل فون بھی ضبط کر لیے۔ مقدونیہ اور بلقان کے متعدد ممالک نے گزشتہ برس اپنی بین الاقوامی سرحدوں کی نگرانی سخت کر دی تھی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ مہاجرین اور تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقدونیہ میں داخل نہ ہو سکیں۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
دوسری طرف برطانوی قانون سازوں نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی بحیرہ روم میں فعال بحریہ انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ صوفیہ نامی یہ فورس سن دو ہزار پندرہ میں بنائی گئی تھی، جس کا مقصد شمالی افریقہ سے بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کو روکنا تھا۔
برطانوی قانون سازوں کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے کہا ہے کہ اس فورس پر بہت زیادہ اخراجات آ رہے ہیں جبکہ یہ مؤثر طریقے سے کام کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق اس فورس کو اپنا طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ حکمت عملی کے تحت یہ مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔