مقدونیہ کی پولیس نے مہاجرین پر آنسو گیس کے شیل برسا دیے
عاطف بلوچ10 اپریل 2016
مقدونیہ کی پولیس نے مہاجرین کو یونان کی سرحد سے متصل نصب کردہ باڑ سے دور کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل برسائے ہیں، جس کی وجہ سے متعدد مہاجرین زخمی ہو گئے ہیں۔ مہاجرین مقدونیہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ دس اپریل بروز اتوار مقدونیہ کی پولیس نے یونان سے ملحق اپنی سرحدی گزرگاہ پر جمع ہونے والے مہاجرین کو منتشر کرنے کی خاطر آنسو گیس کے شیل برسائے ہیں۔
مقدونیہ نے اپنی اس سرحد پر حفاظتی باڑ نصب کر رکھی ہیں۔ تاہم اتوار کے دن پانچ سو مہاجرین اس باڑ کے قریب جمع ہوئے تو انہیں وہاں سے منشتر کر دیا گیا۔
یونان میں اڈومینی کے مہاجر کیمپوں میں گیارہ ہزار مہاجرین عارضی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ یہ یونانی علاقہ مقدونیہ کی سرحد سے ملتا ہے۔ وہاں موجود مہاجرین مقدونیہ سے ہو کر وسطی اور شمالی یورپی ممالک جانے کی کوشش میں ہیں۔
تاہم فروری سے مقدونیہ کی حکومت نے اس سرحدی گزرگاہ کو بند کر رکھا ہے اور اس کے کھولے جانے کی کوئی امید نہیں ہے۔
’عارضی سہی لیکن گھر تو ہے‘
01:56
ترکی اور یورپی یونین کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد اڈومینی میں موجود مہاجرین میں بے چینی کی فضا دیکھی جا رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس مقام پر جمع مہاجرین کو بھی خوف ہے کہ انہیں اس معاہدے کے تحت واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔
مقدونیہ میں ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ اتوار کی صبح اڈومینی کے مہاجر کیمپ میں موجود مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے سرحدی گزر گاہ کا رخ کیا اور انہوں نے سرحدی باڑوں پر دھاوا بول دیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا، جس کے نتیجے میں آنسو گیس کے شیل برسانا پڑے۔
اس اہلکار کا کہنا تھا کہ مہاجرین مقدونیہ داخل نہیں ہو سکے اور سرحدی باڑ کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ امدادی کارکنوں نے بتایا ہے کہ آنسو گیس کے شیل لگنے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔
ایم ایس ایف سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے کہا، ’’لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ہم بہت زیادہ مصروف ہیں۔‘‘ ایک اور امدادی ادارے کے اہلکار نے بھی مہاجرین کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
عینی شاہدین کے حوالے سے روئٹرز نے یہ بھی بتایا ہے کہ مہاجرین اتوار کی صبح سرحدی باڑ پر پہنچے اور انہوں نے مقدونیہ کی پولیس سے سرحد کھول دینے کا مطالبہ کیا۔
مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے پناہ گزين
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر تين کلوميٹر طويل باڑ لگانے کا کام مکمل کر ليا ہے۔ اس دوران وہاں پھنسے مہاجرين کے درميان کشيدگی بڑھ رہی ہے، جس پر قابو پانے کے ليے غير سرکاری تنظيموں نے حکومت سے مدد کا مطالبہ کيا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
يونانی علاقے ميں بے يار و مددگار
مقدونيہ کی سرحد پر پاکستانی پناہ گزين حسن اور محمد صغير خود کو گرم رکھنے کے ليے کوڑے کے ڈھير کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مقدونيہ، سربيا اور سلووينيا کی جانب سے ’محفوظ‘ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو روکنے کے فيصلے کے بعد سے يہ دونوں بھائی يونانی علاقے اڈومينی ميں پھنس گئے ہيں۔ بلقان خطے کے چند ملکوں کے حاليہ اقدام کے نتيجے ميں اس مقام پر ڈيڑھ تا دو ہزار مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سخت سردی ميں کھلے آسمان تلے
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے تعاون سے اس مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کے ليے تين بڑے خيمے کھڑے کر ديے گئے ہيں، جن ميں گرم رکھنے کا انتظام بھی ہے۔ تاہم ادارے کے اڈومينی ميں فيلڈ کوآرڈينيٹر انتونس ريگاس کے بقول اب بھی ايک ہزار کے لگ بھگ مہاجرين رات کے وقت چھ ڈگری درجہ حرارت ميں کھلے آسمان تلے سو رہے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مدد اور تعاون کا فقدان
مراکش سے تعلق رکھنے والا ايک نوجوان سرحد کھلنے کا منتظر ہے تاہم ريگاس کے بقول اس کے امکانات کافی کم ہی ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہم درخواست کر رہے ہيں کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تين نمائندے يہاں بھيجے جائيں جو کيمپ چلانے ميں مدد کر سکيں۔ يہاں کے مکمل انتظامات کی نگران اب غير سرکاری تنظيميں ہی ہيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ذمہ داری نہيں کہ وہ حکومت کا کام سر انجام دے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہريت کی بنياد پر تقسيم
اس وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں شامی، عراقی اور افغان شہری يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہو رہے ہيں جبکہ پيچھے رہ جانے والے الجھن کا شکار ہيں۔ بتيس سالہ بنگلہ ديشی دکاندار شيامال رابی کہتا ہے کہ وہ غير قانونی طور پر يورپ جانے کا خواہشمند نہيں۔ اس کا مزيد کہنا ہے، ’’ہم بھی انسان ہيں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہيں۔ اگر تين ملکوں کے لوگوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے، تو ہميں بھی يہ اجازت ملنی چاہيے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
پناہ گزينوں کے درميان کشيدگی بڑھتی ہوئی
مشکل حالات اکثر اوقات غصے کو جنم ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کيمپوں ميں مہاجرين کے مختلف گروپوں کے مابين لڑائی جھگڑے کے مناظر معمول کی بات ہيں۔ نيپالی باشندے راج کا کہنا ہے کہ ايک ايرانی نے اس کے منہ پر مکا مارا تھا۔ گزشتہ جمعے کے روز ايک غير ساکاری تنظيم کے ڈاکٹروں نے دو شمالی افريقی پناہ گزيوں کے زخموں پر پٹی باندھی، جنہيں چاقو کے وار سے يہ زخم آئے تھے۔ کھانے کے تقسيم کے وقت سے اکثر جھگڑے ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
احتجاج جو کبھی پر امن تھا، پر تشدد ہوتے ہوئے
گزشتہ ہفتے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے مہاجرين نے سوئی دھاگے کی مدد سے احتجاجاً اپنے منہہ سی ڈالے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ تاہم يہ مظاہرے پر امن کچھ ہی وقت کے ليے رہے اور پھر جمعرات اور ہفتے کے روز مہاجرين کی حکام کے ساتھ جھڑپيں رپورٹ کی گئيں۔ ايک امدادی کارکن کے بقول پناہ گزين کافی برہم ہيں۔ کئی مہاجرين شراب نوشی بھی کرنے لگے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی حالت
UNHCR سے وابستہ اليگزاندروس وولگارس کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تيس ہی منٹ ميں حالات تبديل ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کسی چيز کی منصوبہ بندی نہيں کر سکتے، يہ ہنگامی صورتحال ہے اور ہماری کوشش صرف يہی ہے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘ وولگارس کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزينوں سے گزارش کر رہے ہيں کہ وہ يونانی دارالحکومت جائيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کا حصہ بنيں‘
بائيس سالہ يمنی پناہ گزين رامی التھاری اپنے فون پر صناء ميں تباہ کاريوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ وہ ديگر گيارہ يمنی پناہ گزينوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جنہيں حوثی باغيوں کی صفوں ميں شامل ہونے پر مجبور کيا گيا تھا۔ ’’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کريں ليکن ہم نہيں لڑيں گے۔ ہميں ورنہ سعودی مار ديں گے۔ اسی ليے جب تک سرحد نہيں کھلتی، ہم يہيں انتظار کريں گے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ايک اور الميہ
ايک يونانی ورکرز يونين کے ارکان نے ہفتے کے روز يہاں مختلف چيزيں تقسيم کيں۔ يونين کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر اس مقام پر جلد ہی مسائل کا حل تلاش نہ کيا جا سکا، تو يہ اگلا Calais ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ميسر سہوليات ناکافی ہيں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ مہاجرين اپنے مقاصد کے حصول کے ليے متبادل راستے تلاش کريں گے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اسمگلر بھی کافی چالاک ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’پلان بی‘ کيا ہے؟
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اتوار کی دن مکمل کر ليا ہے۔ يونان ميں Medecins du Monde کے صدر نيکيتاس کناکس کے بقول اس مقام پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے ليے دنيا بھر سے لوگ موجود ہيں ليکن يونانی حکومت کا کوئی نمائندہ نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں ميں سرحد مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ اگر ہم سب کو ايتھنز منتقل کر بھی ديتے ہيں، تو پھر کيا ہو گا؟‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
انکار کیے جانے پر کچھ مہاجرین نے سرحدی باڑ کی طرف چلنا شروع کر دیا، جس پر مقدونیہ کی پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
یونانی حکام کی کوشش ہے کہ وہ اڈومینی میں موجود مہاجرین کو قائل کر لیں کہ وہ دیگر رہائشی سینٹرز کے لیے روانہ ہو جائیں لیکن یہ مہاجرین واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ ان کو امید ہے کہ ایک دن سرحدی گزر گاہیں کھل جائیں گی اور وہ یورپ کے دیگر ممالک کا رخ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ مقدونیہ نے سرحد بند کر رکھی ہے اور گزشتہ کئی ہفتوں سے کوئی ایک مہاجر بھی اس راستے سے آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔