سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی سرگرم خواتین کو گزشتہ کئی ماہ سے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ ان خواتین کی گرفتاریوں پر مغربی اقوام نے سعودی حکومت پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/ Amnesty International/M. Wijntjes
اشتہار
بدھ ستائیس مارچ کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی ایک عدالت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقید خواتین کے مقدمات کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ اس سماعت کی تفصیلات عدالت کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں۔ یہ خواتین گزشتہ آٹھ ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں۔
ان خواتین میں انسانی حقوق کی نوجوان کارکن لجین الھذول، کنگ سعود یونیورسٹی کی محقق اور شعبہٴ تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ھتون الفاسی اور ممتاز بلاگر ایمان النفجان نمایاں ہیں۔ ھتون الفاسی نے اپنے ایک تحقیق مقالے میں یہ تحریر کیا تھا کہ حجاز علاقے کی قدیمی سلطنت نبٰطیہ میں خواتین کو موجودہ حکومت سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔ بعض اساتذہ کے مطابق یہی ریسرچ خاتون محقق کا جرم ہے۔
کنگ سعود یونیورسٹی کی محقق اور شعبہٴ تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ھتون الفاسی بھی گرفتار ہیںتصویر: privat
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے مقید خواتین کو قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ گرفتار خواتین کو ناروا سلوک کے علاوہ جنسی زیادتی کا بھی سامنا رہا ہے۔ سعودی حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
پہلے یہ مقدمہ اعلیٰ اختیاراتی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جانا تھا لیکن بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس مقدمے کو ملکی دارالحکومت کی فوجداری عدالت میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ امکاناً حکومت ان خواتین کو کسی حد تک نرم سزا دینے کی جانب مائل ہوئی ہے۔
استغاثہ الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ان خواتین کو سعودی سائبر قوانین کے تحت پانچ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ان پر الزامات ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی سرگرمیوں کے دوران غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کے ساتھ رابطے استوار کیے ہوئے تھیں۔ ان کے علاوہ ان خواتین کو ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
لجین الھذول نے سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ مہم میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/Loujain al-Hathloul
عدالت میں غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کا داخلہ ممنوع رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ان تمام افراد نے عدالتی کارروائی سننے کے لیے مجاز اتھارٹی کو مقدمے کی حساسیت کے تناظر میں درخواست بھی دی تھی۔ بدھ ستائیس مارچ کو عدالت تک پہنچنے والے مغربی سفارت کاروں اور غیر ملکی صحافیوں کو نگرانی میں عدالتی عمارت سے باہر لے جایا گیا۔
نو امریکی سینیٹروں نے بھی سعودی باشاہ کو ان خواتین کے مقدمے ختم کرنے اور انہیں رہا کرنے کے لیے ایک خط تحریر کیا تھا۔ برطانوی اور امریکی وزرائے خارجہ نے سعودی عرب کے اپنے دوروں کے دوران اس معاملے پر اپنی حکومتوں کی تشویش سے ریاض حکام کو آگاہ کیا تھا۔
مغربی اقوام ان خواتین کی گرفتاریوں کے تناظر میں سعودی عرب پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اِن کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کم از کم اٹھائیس ممالک نے ان خواتین کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟