اسٹاک ہولم میں رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ تقسیم کرنے کے لیے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس ایوارڈ کے لیے انسانی حقوق کے تین سعودی کارکنوں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ تینوں آج کل اپنے ملک میں پابند سلاسل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Petersson Ellafi
اشتہار
سعودی شہری القحطانی، الخیر اور الحامد کو یہ ایوراڈ جمعے کی شب سویڈن میں ہونے والی ایک تقریب میں ان کی غیر موجودگی میں دیا گیا۔ رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ کو عرف عام میں ’متبادل نوبل انعام‘ بھی کہتے ہیں۔
القحطانی کا ایوارڈ ان کے بیٹے عمر اور لندن میں مقیم انسانی حقوق کے ایک سعودی کارکن یحیی عسیری نے وصول کیا۔ اس موقع پر عسیری نے کہا، ’’ان تینوں نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور حوصلہ افزائی کی ہے۔‘‘ عسیری نے ریاض حکومت سے ان تینوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
القحطانی اور الحامد انسانی حقوق کے دو ایسے سرکردہ کارکن ہیں، جنہوں نے سعودی عرب میں شہری اور سیاسی حقوق کی ملکی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ ان دونوں کو 2013ء میں 10 اور 11 برس قید کی سزائیں سنا دی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/M. Petersson Ellafi
القحطانی اور الحامد کے برعکس الخیر انسانی حقوق کے ایک نمایاں کارکن اور وکیل ہیں، جو ایک معروف بلاگر بھی ہیں۔ انہیں ان کے بلاگز کی وجہ سے سزائے قید کے علاوہ کوڑوں کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ عربی زبان میں اپنے مکمل نام کے مخفف کے طور پر یہ تنظیم ’ہاسم‘ (HASEM) کہلاتی ہے۔ انہیں یہ سزائیں 2011ء میں ’عرب اسپرنگ‘ کے موقع پر نظر آنے والی تبدیلیوں کے دور میں سنائی گئی تھیں۔
رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ فاؤنڈیشن نے بھی سعودی سلطنت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے لیے کوششیں کرنے والوں کو ہراساں کرنا اور انہیں قتل کرنے کا سلسلہ بند کرے۔ فاؤنڈیشن کے سربراہ اولے فان اُکسکُل نے گزشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ ان تینوں نے پر امن انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔
سال رواں کے لیے یہی ایوارڈ مشترکہ طور پر لاطینی امریکی ملک گوئٹے مالا کی تَھیلما الدانا اور کولمبیا کے ایوان ویلاسکوئیزکو دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔ یہ دونوں شخصیات اپنے اپنے ممالک میں ’بدعنوانی کے جرم میں سزاؤں کو یقینی بنانے کے لیے اور بااختیار طبقے کی طرف سے طاقت کے غلط استعمال کو منظر عام پر لانے کے لیے بڑے جدید انداز میں انتھک کوششیں‘ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Petersson Ellafi
اس کے علاوہ یہی ایوارڈ مشترکہ طور پر تحفظ ماحول کے لیے سرگرم دو کارکنوں کو بھی دیا گیا ہے جن میں سے ایک کا تعلق آسٹریلیا اور جبکہ دوسرے کا برکینا فاسو سے ہے۔
ہر سال دیے جانے والے رائٹ لائیولی ہُڈ ایوارڈ کا سلسلہ 1980ء میں شروع کیا گیا تھا۔ اس ایوارڈ کے بانی معروف سویڈش جرمن انسان دوست شخصیت یاکوب فان اُکسکُل تھے۔ اس ایوارڈ کے اجراء کا مقصد ایسے افراد اور اداروں کی خدمات کا اعتراف تھا، جو دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن جنہیں نوبل انعام جیسے اعزاز کا عام طور پر حقدار نہیں ٹھہرایا جاتا۔
نوبل انعام حاصل کرنے والی متنازعہ شخصیات
1901ء سے جب سے نوبل انعام دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مختلف حلقے اس بارے میں ایک دوسرے سے بالکل الگ موقف رکھتے ہیں۔ نوبل تاریخ کی اب تک کی متنازعہ ترین لمحات کی تصاویر۔
تصویر: AP
کھاد بھی اور کیمیائی ہتھیار بھی
نوبل انعام کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اختلافی فیصلہ جرمن کیمیا دان فرٹز ہابر کو نوبل انعام سے نوازنہ تھا۔ انہیں 1918ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے امونیا کا ایسا مرکب ایجاد کیا، جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہابر کو’’ کیمیائی ہتیھاروں کا خالق‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ ان کی ایجاد کردہ کلورین گیس پہلی عالمی جنگ میں بڑی تباہی کا باعث بنی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہلاکت خیز ایجاد
جرمن سائسندان اوٹو ہان (درمیان میں) کو جوہری انشقاق کی دریافت پر 1945ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے اپنی اس ایجاد کو عسکری شعبے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق نہیں کی تھی تاہم اسے براہ راست جوہری بم بنانے میں استعمال کیا گیا۔ نوبل کمیٹی انہیں 1940ء میں نوبل انعام دینا چاہتی تھی لیکن انہیں ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیے جانے والے حملوں کے بعد 1945ء میں یہ اعزاز دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/G. Rauchwetter
ایک ایجاد پر پابندی
سوئس محقق پاؤل مؤلر کو 1948ء میں ’ڈی ڈی ٹی‘ بنانے پر طب کو نوبل انعام دیا گیا۔ ’ڈی ڈی ٹی‘ کیڑے مار دوا ہے، جو ملریا جیسی دیگر بیماریوں پر قابو پانے میں قدرے مددگار ثابت ہوئی۔ اس نے دوسری عالمی جنگ اور بعد کے دور میں بہت لوگوں کی جان بچائی لیکن تحفظ ماحول کی تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ ایجاد انسانی صحت اور جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے بعد ڈی ڈی ٹی کے زرعی استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UN
پریشان کن ایوارڈ
جرمن امن پسند کارل فان اوسیتزکی کو اسلحہ سازی کےخفیہ جرمن منصوبے کو فاش کرنے پر 1935ء میں امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ کارل فان اوسیتزکی کو غداری کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ ہٹلر نے نوبل کمیٹی پر جرمن معاملات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا۔
تصویر: Bundesarchiv 183-R70579
شدید تنقید اور احتجاجاً استعفے
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنگر اور شمالی ویتنام کے رہنما ’لے ڈک تھو‘ کو امن کا نوبل انعام دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 1973ء کے اس فیصلے پر نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ ان دنوں کو فائر بندی کی کوششوں پر یہ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ تھو نے تو اسے لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسنگر کے ایک نمائندے نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس فیصلے کے بعد بھی جنگ مزید دو سال جاری رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آزاد خیال اور آمر سے روابط
آزاد منڈیوں کی وکالت کرنے والے ملٹن فریڈمین کو معاشیات کا نوبل انعام دینے کو متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فریڈمین کے چلی کے آمر آگستو پینوشے کے ساتھ روابط کی وجہ سے دنیا بھر میں بائیں بازو کے حلقوں نے 1976ء کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی نظریات سے متاثر ہو کر چلی کی حکومت نے لوگوں پر تشدد شروع کیا اور کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے۔
تصویر: PD
مبہم امن انعام
1994ء میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور وزیر خارجہ شیمون پیریز کو مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس کا مقصد مشرقی وسطٰی امن منصوبے میں تیزی لانا تھا۔ تاہم اس سے بات چیت کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک سال بعد ایک اسرائیلی قوم پرست نے رابن کو قتل کر دیا۔ نوبل کمیٹی کے ایک رکن نے یاسر عرفات کو’ دہشت گرد‘ کہتے ہوئے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
تصویر: Jamal Aruri/AFP/Getty Images
فرضی یادداشت اور نوبل انعام
قدیم مایا نسل کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ریگوبیرتا مینچُونے 1992ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ انہیں سماجی انصاف اور نسلی و ثقافتی مفاہمت کے لیے ان کی کوششوں پر اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ تاہم یہ فیصلہ اس وقت کافی متنازعہ ثابت ہوا، جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ شائع ہونے والی ان کی یادداشت جزوی طور پر فرضی ہے۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اس ایوارڈ کی بالکل بھی حقدار نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
قبل از وقت امتیاز
امریکی صدر باراک اوباما کو 2009ء میں ملنے والے امن کے نوبل انعام نے بہت سے حلقوں کو حیران کر دیا تھا اور حیران ہونے والوں میں اوباما خود بھی شامل تھے۔ انہیں بین الاقوامی سفارت کاری اور اقوام کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کے ان کے ارادوں پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ناقدین اور اوباما کے حامیوں کا موقف تھا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس وقت دینا چاہیے تھا کہ جب ان کے منصوبوں کے نتائج سامنے آتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بعد از مرگ اعتراف
2011ء میں طب کا نوبل انعام جولیس ہوف، بروس بؤٹلر اور رالف اشٹائن مین کو نئے’ امیون سسٹم سیل‘ کی دریافت پر مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے طب دیا گیا۔ اعلان سے چند دن قبل اشٹائن مین کا سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ قانون کے مطابق بعد از مرگ کوئی بھی نوبل انعام وصول نہیں کرسکتا۔ تاہم نوبل کمیٹی یہ کہتے ہوئے اشٹائن مین کے حق میں فیصلہ کیا کہ نامزدگی کے وقت انہیں اس سائنسدان کی موت علم نہیں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rockefeller University
ایک بڑی غفلت
نوبل انعام اپنی نامزدگیوں اور اصل حقداروں کو نظر انداز کیے جانے کے حوالوں سے متنازعہ رہے ہیں۔ بھارت میں پر امن تحریک کے بانی گاندھی کو پانچ مرتبہ اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا مگر ایک مرتبہ بھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا۔ 2006ء میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے گیئر لنڈےسٹاڈ نے کہا ’’ نوبل انعام کی 106 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کو امن کا نوبل انعام نہیں دیا گیا۔‘‘