ملائیشیا میں سیاسی تبدیلی کی ہوائیں
22 ستمبر 2011مسلم اکثریتی آبادی والی اس مشرقی ایشیائی ریاست میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے یونائیٹڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن UMNO کی گرفت خاصی مضبوط رہی ہے۔ ملک میں شاندار اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کا سہرا بھی اسی کے سر باندھا جاتا ہے۔ اس پارٹی پر کثیرالسانی اور کثیر المذہبی معاشرے میں آمرانہ کنٹرول کا الزام لگتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے UMNO کی پالیسیوں پر پہلی بار شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی بدعنوانی اور 1970ء کی دہائی کی وہ پالیسیاں ہدف پر ہیں، جن کے تحت مالے نژاد اور چند دیگر لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والوں کو کئی معاملات میں دیگر پر ترجیح دی جاتی ہے۔
ملک پر 1957ء سے اسی جماعت سے وابستہ افراد حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں۔ وزیر اعظم نجیب کا کہنا ہے کہ جدید اور پختہ جمہوریت کے حصول کے لیے وہ متنازعہ پالیسیوں کا خاتمہ کردیں گے۔ ملائیشیا کے ایک سیاسی تجزیہ نگار کریم راسلان کے بقول ملائیشیا میں اب مزید سیاسی کھلاپن ناگزیر ہے مگر اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے بھی بہت ہیں، ’’ ملائیشیا اب مزید ایک مضبوط آدمی کی جمہوریت نہیں رہی، ہم ابھی آگے کی جانب بڑھ رہے مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ ہم کتنے دور پہنچے ہیں اور کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
ماضی کے مقابلے میں پہلی بار اب UMNO کی مخالف سیاسی قوتیں زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا حکومتی دباؤ کے زیر اثر ضرور ہے، مگر انٹرنیٹ پر حکومت مخالف خبریں اور تبصرے عام ہونے لگے ہیں۔
سنگاپور منیجمنٹ یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ نگار بریجیٹ ویلش ملائیشیا کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ محض قوانین میں رد و بدل سے نظام نہیں بدلے گا۔ ’’ آپ چاہیں تو تمام قوانین بدل سکتے ہیں مگر جب تک آپ ان اداروں میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جو ان پر عملدرآمد کرتے ہیں، صورتحال جوں کی توں رہے گی۔‘‘
ملائیشیا کے پولیس اور عدالتی نظام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں UMNO کے حامی ہیں۔ وزیر اعظم نجیب کو حقیقی جمہوری اصلاحات کے نفاذ کے لیے اپنی جماعت کے اندر موجود سخت گیر مؤقف کی حامل قوتوں کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا جو ان کے پیش رو عبد اللہ بداوی کو سخت مشکلات سے دوچار کرچکی ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان