ملائیشیا پر مذہبی قدامت پرستی کی بڑھتی ہوئی گرفت
20 جولائی 2025
ملائیشیا کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ برسوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جس کا ثبوت اسلام پر مبنی جماعتوں کا عروج ہے۔
اگرچہ یہ جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے زیادہ نسلی اعتبار سے متنوع ممالک میں سے ایک ہے، لیکن حکمران اتحاد کے مبینہ لبرل ایجنڈے کے خلاف بڑھتا ہوا عوامی عدم اطمینان وزیر اعظم انور ابراہیم کی اقتدار پر گرفت کے لیے ایک اہم چیلنج بن گیا ہے۔
ملائیشیا میں اپوزیشن سخت ’اسلامی قوانین‘ کے لیے سرگرداں
اپوزیشن پریکتان نیشنل (پی این) یا نیشنل الائنس، پانچ جماعتی گروپ کا ایک اتحاد ہے، جس میں ملائیشین اسلامک پارٹی (پی اے ایس) بھی شامل ہے۔ گزشتہ دہائی میں اس نے کافی مقبولیت حاصل کی اور انتخابی میدان میں بھی کامیابیاں مل رہی ہیں۔
اس نے 2023 کے ریاستی انتخابات میں حیران کن انتخابی کامیابی حاصل کی، اور 245 میں سے 146 سیٹیں جیت کر کئی ریاستوں میں حکومتیں بنائیں۔
یہ انتخابات ایک اہم موڑ ثابت ہوئے، کیونکہ انہوں نے شمالی اور مشرقی ساحلی ریاستوں میں پی این کے کنٹرول کو مضبوط کیا اور خاص طور پر نوجوان اور زیادہ قدامت پسند ملائے ووٹروں میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کیا۔
سبز لہر؟
جن ریاستوں، مثلاﹰ کیلنتان، تیرینگانو، کیداہ اور پرلیس میں پی اے ایس کی حکومتیں ہیں، یہ وہاں اپنے قدامت پسند اسلامی نظریے سے ہم آہنگ پالیسیوں پر زور دے رہی ہے، جس میں حدود (اسلامی فوجداری قانون)، لباس کے سخت ضابطوں کا نفاذ، اور عوامی مقامات پر صنفی علیحدگی کو فروغ دینے کی کوششیں شامل ہیں۔
مسیحیوں کا خدا اور، مسلمانوں کا اللہ اور؟
کچھ لوگ اسے اکثر ’’سبز لہر‘‘ کہتے ہیں، جو قدامت پسند اسلامی پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔
ایک سیاست دان اور رکن پارلیمان وان سیف وان جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ملائیشیا ہمیشہ سے ایک قدامت پسند معاشرہ رہا ہے، جو لبرل جمہوریت پر عمل کرتا ہے۔ اسلام ہماری قومی شناخت کا مرکز ہے۔ اس لیے اسلامی اقدار کو تھامے رکھنا، یا معاشرے کو اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالنا کوئی نئی بات نہیں۔‘‘
لیکن وان جان اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’’کچھ لوگوں‘‘ کی طرف سے پالیسیوں کی تشکیل میں ملک کی کثیر المذہبی اور کثیر النسلی تاریخ، ورثے اور شناخت کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’انور ابراہیم انتظامیہ حکمرانی اور اصلاحات کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے نام نہاد 'اسلامائزیشن‘ کو ایک واہمے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ہمیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ انور ہمارے اصل مسئلے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ ان کی انتظامیہ ایک نااہل انتظامیہ ہے۔‘‘
سیاسی اسلام کا عروج، ایک چیلنج
ملائیشیا ایک کثیر نسلی، مسلم اکثریتی ملک ہے جو تین بڑے نسلی گروہوں ملائے، چینی اور بھارتیوں کا مسکن ہے۔
نسلی ملائے قوم کی 35 ملین سے زیادہ آبادی ہے جو اکثریت میں ہیں، اور آبادی کا تقریباً 60 فیصد ہیں۔ جب کہ نسلی چینی تقریباﹰ ایک چوتھائی ہیں، نسلی بھارتی آبادی تقریباً 7 فیصد ہے۔
ملائیشیا میں بچوں سے جنسی زیادتی کے مبینہ واقعات، علماء سمیت سینکڑوں گرفتار
یہ نسلی گروپ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن نسلی، ثقافتی اور مذہبی تناؤ بھی موجود ہیں۔ سیاسی طور پر غالب ملائے کے حق میں کئی دہائیوں کی پالیسیوں کی وجہ سے نسلی تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔
اگرچہ انور کی حکومت نے پی اے ایس کے مذہبی قدامت پسندی کے برانڈ کو کھلے عام نہیں اپنایا ہے، لیکن ان کی انتظامیہ کے اقدامات، جیسے کہ اسلامی طرز حکمرانی کے ڈھانچے کو تقویت دینا اور اسلامی نظریات کی وکالت میں شامل ہونا، حزب اختلاف کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت کے خلاف جان بوجھ کر ردعمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اگرچہ انور کی پارلیمانی اکثریت کی وجہ سے، ان کی حکومت کی بقا کے لیے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، لیکن پی اے ایس کا اثر و رسوخ ان کے سیاسی ایجنڈے اور دوبارہ انتخابات کے امکانات کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہے۔
تسمانیہ یونیورسٹی میں ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر اور جنوب مشرقی ایشیا کے ماہر جیمز چن نے کہا کہ سیاسی اسلام کا عروج ملائیشیا کو اب اور آنے والے کچھ سالوں کے لیے درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔
چن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اسلام پسندوں نے نوجوان ملائے کو برین واش کرنے کے لیے بہت سے اسلامی مذہبی اسکول قائم کرنے کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے… بنیادی طور پر انہیں اسلام کی تعلیم دینا ہی ہر چیز کا جواب ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اہم بات یہ ہے کہ وہ ریاستی نصاب سے ہٹ کر اپنا نصاب ترتیب دینا چاہتے ہیں، جو بنیادی طور پر انہیں اسلام، سیاسی اسلام کو چھوڑ کر اور کچھ نہیں سکھاتا ہے۔‘‘
لیکن چن کے مطابق اسلامائزیشن کی زیادہ تشویشناک وجہ ملائیشیا کی ترقی اور اچھی ملازمتیں اور اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے میں موجودہ ملائے مسلم سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا،’’نوجوان ملائے موجودہ نظام سے مایوس ہو رہے ہیں، اس لیے وہ اسلام کی طرف رخ کرتے ہیں۔ جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس سیاسی نظام یا اسلامی طرز حکمرانی ہے، تو یہ بدعنوانی ختم ہو جائے گی اور آپ کو زندگی میں ایک بہتر موقع ملے گا۔‘‘
چن کے مطابق ’’آنے والے سالوں میں، ملائیشیا بہت زیادہ قدامت پسند ہو جائے گا اور وہاں اسلام کی بیوروکریٹائزیشن بہت زیادہ ہو گی۔‘‘
اسلامائزیشن کی بڑھتی ہوئی حمایت
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پی این کے سیاست دان حقیقی مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہیں یا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے مذہب کو جان بوجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔
حکومت کے نقطہ نظر کو اکثر ’’مدنی‘‘ یا اعتدال پسند اسلام کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، لیکن کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اہم مذہبی مسائل پر اس کی پالیسیوں اور اپوزیشن کی پالیسیوں میں بہت کم عملی فرق ہے۔
اور ایسے شواہد بھی ہیں کہ ملائے مسلم ووٹروں کا ایک بڑا حصہ معاشرے کی زیادہ سے زیادہ اسلامائزیشن کی حمایت کرتا ہے، جس کے ملک کے دیگر نسلی گروہوں کی فلاح و بہبود کے لیے مضمرات ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، 2023 کے پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں پتا چلا ہے کہ 86 فیصد مسلمان ملائے نے شریعت کو سرکاری قانون بنانے کی حمایت کی، جب کہ 65 فیصد کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کے قانون کو قرآن کے زیادہ سے زیادہ مطابق ترتیب دیا جانا چاہیے۔
نارڈک کاؤنٹر ٹیررازم نیٹ ورک، جو ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک ہے، کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ یورپ میں مقیم کئی بنیاد پرست اسلام پسند گروپ بھی اپنی کارروائیاں ملائیشیا میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
نیٹ ورک کے ڈائریکٹر ایڈرین راج نے گزشتہ ہفتے ایک آن لائن نیوز پورٹل فری ملائیشیا ٹوڈے کو بتایا، ’’غیر ملکی اسلام پسند بنیاد پرست ملائیشیا پر اکٹھے ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے میں ملک کی کمزور پالیسیوں سے واقف ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومتی پالیسیاں مذہبی بنیاد پرستی کی علامات اور بنیادی وجوہات کو دور کرنے میں ناکام ہیں۔
محض سیاسی مصلحت؟
وی چو کیونگ، ایک سیاست دان ہیں، جو پہلے ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی (ڈی اے پی) کے رکن تھے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملائیشیا میں اسلامائزیشن کے لیے دباؤ کو اکثر’’سیاسی پوزیشن اور مصلحت‘‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیونگ نے کہا، ’’طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت عرصے سے خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ مذہبی بیان بازی کا موقع پرست استعمال، خاص طور پر انتخابات کے وقت یا سیاسی بحرانوں کے دوران، زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کا ایک حربہ ہے۔‘‘
ملائیشیا کے ایک ممتاز تاجر شاہ حکیم زین بھی ان خیالات کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ 'سبز لہر‘ سیاسی روپ ہے۔ ’’جب سیاسی جماعتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں یا غیر یقینی حالات کا شکار ہوتی ہیں، تو وہ مذہب کا استعمال کرتی ہیں۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین