ملائیشیا کا جہاز روہنگیا کے لیے امداد لے کر پہنچ گیا
9 فروری 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ملائیشیا کا بحری جہاز جو 2,300 ٹن امدادی اشیاء لے کر ینگون پہنچا ہے ان میں میانمار میں مشکلات کی شکار مسلمان روہنگیا اقلیت کے لیے خوراک اور ادویات شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اس نسلی گروپ کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں، جنسی زیادتیوں اور دیگر جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ میانمار کی فوج کی طرف سے یہ جرائم ریاست راکھین میں انسداد دہشت گردی مہم کے دوران کیے گئے۔ قریب دس لاکھ روہنگیا مسلمان اس مشرقی ریاست میں رہائش پذیر ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے ماہرین نے کہا تھا کہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ میانمار کی فورسز انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہیں۔
ملائیشیا کی طرف سے بھیجا جانے والا امدادی بحری جہاز ’’فوڈ فلوٹیلا فار میانمار‘‘ آج جمعرات نو فروری کو ینگون کی بندرگاہ پر پہنچا ہے۔ منتظمین نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ میانمار کی حکومت وعدے کے مطابق یہ اشیاء متاثرہ افراد تک پہنچائے گی، حالانکہ ماضی میں یہ امتیازی سلوک روا رکھتی رہی ہے۔
اس امدادی سامان کی ترسیل کے انتظامات کرنے والی ملائیشیا کی تنظیم ’’ون پُتیرا کلب ملیشیا‘‘ سے تعلق رکھنے والے رضا علی راملی کے مطابق، ’’ہمیں میانمار کی خود مختاری کا احترام کرنا ہے۔۔۔ ہم مثبت یقین کے ساتھ یہ امدادی سامان ان کے حوالے کر رہے ہیں۔‘‘
ملائیشیا کی طرف سے گزشتہ برس دسمبر میں جب اس امدادی سامان کی فراہمی کا اعلان کیا گیا تو میانمار کی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔ تاہم جنوری میں اس بحری جہاز کو امدادی سامان لانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر شرط یہ رکھی گئی کہ یہ ریاست راکھین کے دارالحکومت سِتوے میں لنگر انداز ہونے کی بجائے ینگون کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گا۔
امدادی سامان کی آمد پر بودھ راہبوں کا احتجاج
آج جمعرات نو فروری کو امدادی سامان لے کر ملائیشیا کا بحری جہاز جب ینگون کی بندرگاہ پر پہنچا تو درجنوں بودھ بکھشوؤں نے بندرگاہ کے باہر ایک مظاہرہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار میں کوئی روہنگیا نہیں بستے۔ میانمار بدھسٹ نیشنل نیٹ ورک کے سربراہ وِن کو کو کے مطابق، ’’ہم اس سامان کو اُس صورت میں قبول کر سکتے ہیں اگر یہ جہاز بنگالیوں کو امداد پہنچانے کے لیے آ رہا ہے، اور ہم امداد کو روک نہیں رہے۔ لیکن ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ میانمار میں کوئی روہنگیا نہیں ہیں۔ اور یہی ہماری مہم ہے۔‘‘