ملائیشیا کا سیاسی بحران، مہاتیر محمد وزیر اعظم نہیں بن پائے
29 فروری 2020محی الدین یٰسین کی نامزدگی کے بعد سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کا ٹیکنوکریٹس پر مشتمل حکومت قائم کرنے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا ہے۔ چورانوے سالہ مہاتیر محمد کے تقریباً ایک ہفتہ قبل منصب وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد ہی سیاسی بحران نے شدت اختیار کی تھی۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بیراستاؤ کی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔
بیرستاؤ یا ملائیشیائی متحدہ دیسی پارٹی کی صدارت بھی اس وقت محی الدین یٰسین کے پاس ہے۔ انہیں سابقہ الیکشن میں ہارنے والی نجیب رزاق کی سیاسی جماعت یونائیٹڈ ملائے نیشنل پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم نجیب رزاق کو سن 2018 میں کرپشن کے الزام کے تحت انتخابات میں شکست ملی تھی۔ مہاتیر محمد نے دوبارہ وزیراعظم بننے کے لیے رزاق کی سیاسی جماعت کی حمایت لینے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ بھی اہم ہے کہ مہاتیر محمد نے ہفتہ انتیس فروری کو اپنے سیاسی حریف انور ابراہیم کے ساتھ حکومت تشکیل دینے کے لیے ایک مرتبہ پھر ہاتھ ملا لیا تھا۔ وہ اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح محی الدین یٰسین کو وزیراعظم بننے سے روکا جا سکے کیونکہ اس طرح نجیب رزاق اور اُن کی سیاسی جماعت کے کئی دوسرے اراکین کے خلاف کرپشن الزامات کے تحت جاری مقدامات میں حکومتی موقف نرم ہو سکتا ہے۔
ملائیشیائی بادشاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلان میں واضح کیا گیا کہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ کو یقین ہے کہ ملکی سیاسی بحران محی الدین یٰسین کی نامزدگی سے ختم ہو سکتا ہے۔ یٰسین اتوار پہلی مارچ کو نئے وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے۔ بادشاہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کے حوالے سے یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔ یٰسین سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی حکومت میں نائب وزیراعظم تھے اور انہیں برخاست کر دیا گیا تھا۔
بہتر سالہ محی الدین یٰسین نے سن 2016 میں مہاتیر محمد کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ملائیشیائی متحدہ دیسی جماعت (Bersatu) کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی سیاسی جماعت نے انور ابراہیم کے سیاسی اتحاد پاکاتان ہاراپان (Alliance of Hope) ساتھ انتخابات میں متفقہ و مشترکہ طور شرکت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔ مشرق بعید کے سیاسی منظر پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں نے محی الدین یٰسین کو وزیراعظم کی نامزدگی ملنے پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
آسٹریلیا کی تسمانیہ یونیورسٹی کے ایشیا انسٹیٹیوٹ کے سربراہ جیمز چن نے اس نامزدگی کو ملائیشیا کے لیے ایک بُری خبر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملائیشیا میں نئی حکومت میں ایک ایسی سیاسی جماعت بھی شامل ہے جو سخت اسلامی نظام کے قیام کی حمایت کرتی ہے انور ابراہیم کی سیاسی جماعت نے بھی یٰسین کی وزارت عظمیٰ میں تشکیل پانے والی حکومت کو چوروں اور غداروں کی حکومت قرار دیا ہے۔
ع ح ⁄ ع س (اے پی، روئٹرز)